سرینگر// ریاستی عدالت عالیہ نے ایک انتہائی اہم فیصلہ صادر کرتے ہوئے سیفٹی ایکٹ کے حکمنامے کی توسیع کے معاملے میں طویل عرصے سے جاری قانونی قضیہ کو سلجھا دیا ہے اور اس معاملے میں سنگل بنچ کے ایک حکمنامے کوکالعدم کرتے ہوئے واضح کردیا کہ سیفٹی ایکٹ کی مدت میں توسیعی حکمنامے کو اس وقت سر نو چیلینج کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب بنیادی پی ایس اے آرڈر کسی عدالت میں زیر سماعت ہو ۔جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس راما لنگم سئدھاکر پر مشتمل ڈویژن بنچ کے سامنے طارق احمد صوفی،شاہد احمد بٹ ،تجمل اسلام میر اور عارف رشیدشاہ پر عائد سیفٹی ایکٹ کے حوالے سے دائر عرضی پر سماعت ہوئی۔چاروں قیدیوں کی طرف سے معروف قانون دان اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے پیروی کی جنہوں نے اس کیس سے جڑے قانونی نکات پر ڈویژن بنچ کے سامنے تفصیلی اور موثر دلائل پیش کئے ۔واضح رہے کہ مذکورہ چاروں قیدیوں پر متعلقہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کے ذریعے سیفٹی ایکٹ تین مہیوں کی مدت کیلئے عائد کیا گیا تھا اور انہوں نے جونہی انکے خلاف عائد اس قانون حبس کے خلاف رجوع کیا تو سرکاری وکلاء نے عدالت کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ مذکورہ قیدیوں کی مدت قید میں متعلقہ ضلع مجسٹریٹس نے توسیع کا حکم صادر کیا ہے لہٰذا عرضی گذاروں کو چاہئے کہ وہ توسیعی حکمنامے کے خلاف چیلینج کریں جس کے بعد ہی بنیادی عرضی پر سماعت کی جاسکتی ہے ۔اس وقت سنگل بنچ نے سرکاری وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے چاروں قیدیوں کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں سیفٹی ایکٹ کے توسیعی حکمنامے کے خلاف بھی حسب خواہش چیلنیج کرنے کا مشورہ دیا۔اس ایشو پر پیدا شدہ قانونی قضیہ کے چلتے ہوئے مذکورہ قیدیوں نے بار صدر میاں عبدالقیوم ایڈوکیٹ سے رابطہ کیا جنہوں نے سنگل بنچ کے حکمنامے کو ڈویژن بنچ کے سامنے چیلینج کیا ۔ایڈوکیٹ میاں قیوم نے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف قانونی جرح کرتے ہوئے کہاکہ یہ صریحا قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس طرح قید و بند کا حکم جاری کرنے والی اتھارٹی کو من مطابق کسی بھی نظر بند کی قید کو طول دینے کا اختیار ملے گا اور ہر تین ماہ کے بعد سیفٹی ایکٹ کی مدت میں توسیعی آرڈر جاری کرکے متاثرہ قیدی کو اسکے خلاف عدلیہ سے رجوع کا حق بھی چھین لے گا ۔انہوں نے قانون حبس کے حوالے سے سپریم کورٹ اور جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے علاوہ جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978کی تشریح کرتے ہوئے ہر نکتے کو باریکی سے ابھارا اور ڈویژن بنچ سے درخواست کی کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کی کھلی چھوٹ نہ دے کہ وہ من پسند طریقوں سے کسی شہری کے حق آزادی کو سلب کرے اور انہیں عدلیہ سے رجوع کرنے کا بھی حق نہ دے ۔اس موقعے پر ایڈوکیٹ میاں قیوم نے منیجمنٹ رول2010کا بھی تفصیلی خلاصہ پیش کیا اور سنگل بنچ کی جانب سے ان چاروں قیدیوں کی عرضی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پیش کی ۔اس موقعے پر سرکاری وکلاء نے بھی سیفٹی ایکٹ کی مدت میں توسیع کے معاملے میں اپنا موقف اور دلائل سامنے رکھے تاہم ڈویژن بنچ نے بار صدر کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس اہم قانونی قضیے کو سلجھا دیا ۔10صفحات پر مشتمل ڈویژن بنچ کے فیصلے میں واضح کردیا گیا ہے کہ بنیادی سیفٹی ایکٹ آرڈر کے خلاف دائر عرضیوں کی سماعت ہر صورت میں جاری رہے گی اور اگر اس دوران سرکار اس ایکٹ کی مدت میں توسیع کا حکم بھی صادر کرتی ہے تو اس بنیادی عرضی کی قانونی چارہ جوئی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نیز یہ سرکارہی اس بات کی مکلف ہوگی کہ وہ متعلقہ عدالت کو اس توسیعی آرڈر سے آگاہ کرے ۔اپنی نوعیت کے منفرد اور اہم فیصلے میں ڈویژن بنچ نے کہاکہ سنگل بنچ کی جانب سے صرف اس بنا پر قیدیوں کی عرضی زیر سماعت لانے سے انکار کا فیصلہ قانون کی نظر میں صحیح نہیں ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔ڈویژن بنچ نے قیدی کیلئے یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ چاہے توسیفٹی ایکٹ1978کی دفعہ18میں کوئی خامی کی صورت میں اسکے خلاف بھی چیلینج کرسکتا ہے تاہم بنیادی پی ایس اے حکمنامہ کی اصلیت و ہیئیت برقرار رہے گی۔