نہیں نہیں ! تم کو ہم بینک کی نوکری نہیں کرنے دیں گے۔ نہ اس میں پینشن ہے اور نہ دوسری مراعات جو باقی سرکاری ملازموں کو ملتی رہتی ہیں۔ اتنی محنت اور پڑھائی کرنے کے باوجود بھی اگر تم کو ایسی نوکری ملے اور جو پینشن سے بھی خالی ہو تو فائدہ کیا ہے ؟ ریٹائرمنٹ کے بعد انسان اگر بیس تیس سال تک بھی زندہ رہتا ہے تو پینشن کے بغیر کیسے گزارا ہو سکتا ہے۔ کتنی مشکلات در پیش آسکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ دلاور میر اپنے بیٹے یاسر میر سے گفتگو کررہا ہے ۔ دو دن پہلے بینک میں بحیثیت ایگزیکٹیو اسکی سلیکشن ہوئی ہے ۔
کافی سوچ بچار کے بعد یاسر نے اپنے باپ کی بات مانتے ہوئے بینک کی نوکری کرنے کا ارادہ ترک کیا ۔ اب وہ کوئی دوسری نوکری حاصل کرنے کے لئے انتھک محنت کررہا ہے ۔ جس محکمے میں بھی اور جہاں بھی نوکری کے لئے اشتہارات نکلتے ہیں یاسر میر اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں ۔ پانچ سال ایسے ہی گزر گئے ۔ آخر کار یاسر میر محکمہ تعلیم میں بحثیت ایک استاد تعینات ہوئے اور باپ کا ادھورا خواب بھی پورا ہوا ۔ گھر میں خوشیوں کا ماحول بنا اور گھر کا ہر فرد یاسر کی محنت کی داد دینے لگا۔ اب اسکو اچھی نوکری بھی ملی اور ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن ملنے کے امکانات بھی واضح ہیں ۔
دو ہفتے بعد قصبے کے ایک سکینڈری اسکول میں میں اسکی تعیناتی ہوئی ۔ خوشی سے وہ ہر روز وقت پر اسکول جانے کی تیاری میں رہتا اور اپنے فرائض اچھی طرح نبھانے لگا۔ گھر میں والدین اور باقی افراد اسکی بڑی عزت کرتے کیونکہ وہ واحد کمانے والا تھا ۔ تین سال بعد اسکی شادی بھی باپ کے کہنے پر ہی کی گئی ۔ بہو کے آنے کے بعد گھر کا ماحول اور دوبالا ہوا کیونکہ یاسر میر کی بیوی ایک نیک سیرت باپ کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ ماں باپ نے اسکی اچھی تعلیم و تربیت کی تھی ۔ اب انکے دو بچے بھی ہوئے اور بڑا بیٹا اسکول میں داخل بھی کیا گیا ۔ شادی کے چار سال مکمل ہوئے اور یاسر میر نے نیا مکان بنانا شروع کیا ۔
ایک دن اسکول پر کسی اعلی آفیسر کا دورہ تھا تو یاسر میر صبح سویرے اپنی تیاری میں مشغول ہوا ۔ وہ ہر روز موٹرسائیکل پر ڈیوٹی جاتا تھا ۔ گھر کے تمام افراد صبح کی چائے پی رہے تھے تو رشید جو انکا ہمسایہ تھا، دوڑتے ہوئے کچن میں داخل ہوا اور یہ خبر دی ۔۔۔۔
یاسر صاحب کا حادثہ ہوا ہے اور وہ موقع پر ہی زندگی کی جنگ ہار گیا ہے ۔
گھر کے تمام افراد یہ خبر سنتے ہی بے ہوش ہو گئے اور وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر پائے ۔
اب ہر کوئی ہمسایہ اور رشتہ دار جو تعزیت پرسی کےلئے آتا ہے یہ الفاظ دوہراتا ہی ۔۔۔۔
دلاور میر نے اپنے بیٹے کو پیشن کی خاطر بینک کی نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا لیکن تقدیر میں کچھ اور لکھا ہوتا ہے اور وہ کچھ سال بعد ہی حادثاتی موت کا شکار ہوا ۔۔۔
���
قاضی گنڈ ، اننت ناگ کشمیر