پیلٹ فائر، جسے پہلے ہی دنیا بھر کی رائے عامہ نے ایک غیر انسانی اور بہیمانہ ہتھیار قرار دیا ہے، کا بار بار استعمال کشمیر میں صورتحال کو سنگین بناتا جا رہا ہے اور حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود سیکورٹی فورسز اس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے سے گریز کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ شوپیان میں گزشتہ دنوں جس بڑے پیمانے پر اس انسانیت کش ہتھیار کا استعمال عمل میں لایا گیا اُس سے فی الوقت 41ایسے شہری ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن کے لئے کلی یا جزوی طور پر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونے کا خطرہ پیداہوگیا ہے۔ اس طرح حکومت کی جانب کم مہلک قرار دیئے جانے والے اس ہتھیار نے کتنے گھرانوں میں اندھیرا برپا کر دیا اس کے لئے حکومت بہر حال دنیا کے سامنے جوابداہ ہے۔ اگر چہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ برس ایک عرضی، جو کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے دائر کی تھی، پر اپنے فیصلے کے دوران مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ پیلیٹ گن کا مؤثر متبادل اختیار کرے، لیکن اس کے باوجود مرکزی و ریاستی حکومتیں اس پر عمل آوری میں نہ صرف ناکام ہوئی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی حلقوں کی سوچ میں اس خیال کی رمق بھی کہیں نظر نہیں آتی تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے پیلٹ کے استعمال کا معاملہ حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا اور یہ فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا تھاکہ وہ کیا متبادل اختیار کرے گی اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پیلٹ چھروں کے متبادل استعمال کرنے کی باتیں پہلے بھی ہوئی تھی اور 2016ایجی ٹیشن کے دوران ہی مرکزی وزیر داخلہ نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی اور اُس کمیٹی نے واضح الفاظ میں پیلٹ بندوق کے استعمال کی ممانعت کرکے اس کا متبادل متعارف کرنے پر زور دیا تھا ۔چنانچہ اس کے بعد ہی پاوا شل کو پیلٹ گن کے متبادل کے طور متعارف کیاگیالیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ پیلٹ بندوق کا استعمال مسلسل جاری ہے اور یہ بندوق پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کا پسندیدہ ہتھیار بن گیا ہے اور وہ اسی ہتھیار کا استعمال کرکے احتجاج کی لہر کودبانے پر تلے ہوئے ہیں۔دلّی اور سرینگر میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجماں لوگوں کو یہ ناقابل تردید حقیقت قبول کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر میں تاریخی سیاسی وجوہات کی بنا پر مزاحمت کا جذبہ موجودہے ۔ہاتھوں میں پتھر لیکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے والوں پر قوم دشمنی کا لیبل لگا کر آپ ایک پوری نسل اور قوم کو ہی متنفر کررہے ہیں اور اس پالیسی سے مثبت نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں بیزاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔کشمیر میں پیلٹ گنوں کا دفاع کرنے والی مرکزی حکومت کو ذرا سوچ لینا چاہئے کہ اگر ہریانہ کی جاٹ ایجی ٹیشن، تمل ناڑوکی جلی کٹو ایجی ٹیشن اور موجودہ دلت ایجی ٹیشن کے دوران پیلٹ گن کہیں استعمال نہیں ہوا تو کشمیر میں مظاہرین یا پتھرائو کرنے والوں پر کیوں کر پیلٹ شلنگ اور اندھا دھند گولیاں برسائی جارہی ہیں۔آخر یہ پیمانے جدا جدا سے کیوں ہیں؟۔اگر مرکزی اکابرین ذرا غور فرمائیں گے تو انہیں جواب مل جائے گا ۔وقت کاتقاضا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسندانہ جذبات کو بزور طاقت کچلنے یا دبانے کی بجائے تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت اور ہمدردی کی پالیسی اپنائی جائے تاکہ لوگوں کو یہ لگے کہ دلّی کی حکومت ان کیلئے درددل رکھتی ہے ورنہ موجودہ پالیسی سے دوریاں مزید بڑھ ہی جائیں گی جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ موجودہ صورتحال پر جہاں بین الاقوامی سطح پر زبردست نکتہ چینی سامنے آرہی ہے وہیں ملک کے اندر بھی متعدد حلقے ایسے ہیں جو جموںوکشمیر اور دیگر ریاستوں میں ہجوم کو قابو کرنے کےلئے اختیار کی جانے والی پالیسی میں امتیاز اور تفاوت کو سامنے لاکر ریاستی عوام کے تئیں مرکزی حکومت کے سلوک پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔