پیلٹ گن کے استعمال کو موت وحیات کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس کا مؤثر متبادل اختیار کرے ۔عدالت عظمیٰ نے پیلٹ گن کے استعمال سے مظاہروں میں شامل نابالغوں کے زخمی ہونے پر بھی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کا استعمال کوئی عدالتی معاملہ نہیں ہے تاہم عدلیہ معاملہ میں مداخلت کرکے متعلقہ فریقین کیلئے کوئی قابل قبول حل تلاش کرسکتی ہے ۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ ہدایات کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی اُس عرضی پر سماعت کے دوران سامنے آئیں جس میں پیلٹ گن کے استعمال سے متعلق ریاستی عدالت عالیہ کے حکمنامہ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیاگیا تھا۔عدالتی ہدایت کے بعد اگر چہ یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ پیلٹ کا متبادل متعارف ہوگا تاہم یہ بھی غور طلب ہے کہ عدلیہ نے اس معاملہ میں کوئی واضح ہدایت دینے سے انکار کیا ہے اور پیلٹ چھروں کے استعمال پر پابندی بھی نہیں لگائی ہے جسکی استدعا کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے کی تھی ۔عدالت نے ایک مرتبہ پھر گیند حکومت کے پالے میں ڈالتے ہوئے سارا معاملہ حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے اور اب فیصلہ مرکزی حکومت کو کرنا ہے کہ وہ کیا متبادل اختیار کرے گی تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پیلٹ چھروں کے متبادل استعمال کرنے پر پہلی دفعہ زور نہیں دیاگیا ہے بلکہ 2016ایجی ٹیشن کے دوران ہی مرکزی وزیر داخلہ نے ایک کمیٹی بنائی تھی اور اُس کمیٹی نے واضح الفاظ میں پیلٹ بندوق کے استعمال کی ممانعت کرکے اس کا متبادل متعارف کرنے پر زور دیا تھا اور اس کے بعد ہی پاوا شل کو پیلٹ گن کے متبادل کے طور متعارف کیاگیالیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ پیلٹ بندوق کا استعمال مسلسل جاری ہے اور یہ بندوق پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کا پسندیدہ ہتھیار بن گیا ہے اور وہ اسی ہتھیار کا استعمال کرکے احتجاج کی لہر کودبانے پر تلے ہوئے ہیں۔اب جبکہ عدالتی ہدایت آئی ہے تو امید پیدا ہوگئی ہے کہ شاید اب کی بار حکومت پیلٹ بندوق کا متبادل متعارف کرنے پر مجبور ہوجائے گی لیکن کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے جس طرح پیلٹ چھروں کے استعمال کے حق میں دلائل پیش کئے ہیں،وہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ فی الوقت مرکزی حکومت کے پاس پیلٹ چھروں کا استعمال بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔اٹارنی جنرل نے زخمی اہلکاروں کے اعدادوشمار پیش کرکے نہ صرف پیلٹ گن کے استعمال کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی بلکہ الٹا نہتے مظاہرین کو ہی مجرموں کی صف میں یہ کہہ کر کھڑا کردیا کہ وہ پیٹرول بموں ،تیل خاکی بموں ،تیز دھار والے ہتھیاروں سے لیس ہوکر فورسز پر حملہ کرتے ہیں ۔اٹارنی جنرل نے مظاہرین کو سرحد پار سے تربیت یافتہ اور قوم دشمن قرار دیکر اس سیدھے سے معاملہ کو قومی سلامتی سے جوڑنے کی جس طرح کوشش کی ،وہ اُس مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے جو دلّی میں کشمیر کے تئیںپایا جاتا ہے ۔دلّی کی نظروں میں کشمیر کا ہر وہ شہری قوم دشمن اور پاکستان کا آلہ کار ہے جو نظام کے خلاف بات کرنے کی جرأت کرتا ہے یا پھر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے احتجاج کی راہ اختیار کرتا ہے۔گوکہ اٹارنی جنرل کو بے تکی باتوں پر عدلیہ کی جانب سے ہزیمت کا بھی سامنا کرناپڑا تاہم ان کے دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نئی دہلی کشمیر کے ہر مسئلہ کو سیکورٹی اورقومی سلامتی کے زاویہ سے دیکھنے کی عادی ہوچکی ہے اور وہ اپنی خامیوں کا احساس کرنے کی بجائے کشمیر کے ہر ایک معاملہ کو سرحد پار سے جوڑ کر عوام الناس کوزمینی حقائق بے خبر رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے کو چھپا یا نہیں جاسکتا ہے ۔عدالت نے بجا پوچھا کہ اگر ان مظاہروں میں سرحد پار کے لوگ شامل ہوتے ہیں تو انکی نشاندہی کریں ۔دلّی اور سرینگر میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجماں لوگوں کو یہ ناقابل تردید حقیقت قبول کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر میں تاریخی سیاسی وجوہات کی بنا پر مزاحمت کا جذبہ موجودہے ۔ہاتھوں میں پتھر لیکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے والوں پر قوم دشمنی کا لیبل لگا کر آپ ایک پوری نسل اور قوم کو ہی متنفر کررہے ہیں اور اس پالیسی سے مثبت نتائج کی توقع رکھنا عبثہے بلکہ اس کے نتیجہ میں بیزاری میں مزید اضافہ ہوگا ۔کشمیر میں پیلٹ گنوں کا دفاع کرنے والی مرکزی حکومت کو ذرا سوچ لینا چاہئے کہ جب ہریانہ کی جاٹ ایجی ٹیشن اور تمل ناڑوکی جلی کٹو ایجی ٹیشن کے دوران پیلٹ گن کجا ،اشک آور گولوں کا استعمال بھی نہیں ہوتا ہوتو کشمیر میں مظاہروں یا پتھرائو کرنے والوں پر کیوں کر پیلٹ شلنگ اور اندھا دھند گولیاں برسائی جارہی ہیں۔آخر یہ پیمانے جدا جدا سے کیوں ہیں؟۔اگر مرکزی اکابرین ذرا غور فرمائیں گے تو انہیں جواب مل جائے گا ۔وقت کاتقاضا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسندانہ جذبات کو بزور طاقت کچلنے یا دبانے کی بجائے تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت اور ہمدردی کی پالیسی اپنائی جائے تاکہ لوگوں کو یہ لگے کہ دلّی کی حکومت ان کیلئے درددل رکھتی ہے ورنہ موجودہ پالیسی سے دوریاں مزید بڑھ ہی جائیں گی جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔