پرویز احمد
//
سرینگر// پچھلے 90دنوں میں آنکھوں پر پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے نوجوان جراحیوں کے مختلف مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی صرف10فیصد بصارت ہی واپس حاصل کرسکتے ہیں ۔ سرینگر کے صدر اسپتال میں شعبہ چشم کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر نوجوانوں کی آنکھوں کے زخم گہرے ہیں اور جراحیوں کے ذریعے زخموںکی مرمت کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہورہے ہیں تاہم ڈاکٹروں کو اُمید ہے کہ10اکتوبر کو پیلٹ کے بناوٹ کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد علاج کے طریقہ کار میں تبدیلی ممکن ہے جس سے بہتری آسکتی ہے۔وادی کے اطراف وا کناف میںپچھلے تین ماہ کے احتجاجی مظاہروں کے دوران آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے نوجوانوں میں 820نوجوانوں کو سرینگر کے صدر اسپتال میں داخل کیا گیا جن میں 5کو بیرون ریاست منتقل کیا گیا ہے۔وادی سمیت بیرون ریاستوں میں آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کو جراحیوں کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا مگر ڈاکٹروں کی انتھک کوششوں کے باوجود بھی بیشتر زخمی نوجوانوں کی بصارت پوری طور بحال ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ چندی گڑھ میںآنکھوں کی علاج کے غرض سے گئے فردوس احمدساکن سوپور نے بتایا ’’ بیرون ریاست علاج و معالجے کیلئے کافی رقومات درکار ہوتی ہیں۔‘‘ فردوس احمد نے بتایا کہ آپریشن فیس50ہزار روپے مقرر ہے اور تمام اخراجات جمع کرنے پر تقریباً2لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ فردوس احمد نے بتایا کہ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اپنی جائیداد فروخت کرکے رقم جمع بھی کرلیں مگر ڈاکٹر بصارت واپس آنے کی کوئی ضمانت نہیں دیتے۔‘‘ فردوس کہتے ہیں کہ 20دن دلی کے ایمز اسپتال میں گزارنے کے باوجود بھی نہ تو کوئی جراحی انجام دی گئی اور نہ ہی کوئی علاج کیا گیا۔ فردوس نے بتایا کہ سرینگر آنے کے بعد دو جراحیاں انجام دی گئیں مگر ابتک کچھ خاص بہتری نہیں آئی۔سرینگر کے صدر اسپتال میں پچھلے90دنوں سے پیلٹ سے زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج و معالجہ کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتال آنے والے زخمیوں میں زیادہ ترنوجوانوں کی آنکھوں میں پیلٹ مارے گئے تھے اور اکثر نوجوانوں کو کافی قریب سے پیلٹ مارے گئے تھے جس کی وجہ سے انکی آنکھوں میں کافی گہرے زخم لگ گئے ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کسی زخمی کی پتلی، تو کسی کی آنکھ کا پردہ گرگیا تھا۔ صدر اسپتال میں شعبہ امراض چشم نے ایک سرجن نے بتایا کہ نامساعد حالات کے ابتدائی ایام میں زخمی ہونے والے نوجوانوں میں جراحیوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ مذکورہ ڈاکٹر نے بتایا کہ اگرچہ شعبہ چشم کے سرجنوں کی معاونت کیلئے ہر ماہ ماہر امراض چشم ڈاکٹر ایس نٹراجن دورہ کرکے زخمیوں کی جراحیاں انجام دیتے ہیں مگر تین ماہ کا وقفہ گزرنے کے باوجود بھی زخمی نوجوان بصارت واپس حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ 10فیصد بصارت حاصل ہوسکتی ہے۔ مذکورہ ڈاکٹر نے بتایا کہ 10اکتوبر کو پیلٹ کی بناوٹ کی تحقیقی رپورٹ دلی سے مو صول ہوگی جس سے علاج میں بہتری آئے گی۔