کنگن//کنگن میں سوموار کو نزدیک سے پیلٹ چلانے کے باعث زخمی نوجوان صورہ میں دم توڑ بیٹھا۔اس طرح احتجاجی مظاہروں کے دوران تین روز میں جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 5تک پہنچ گئی ہے۔ریاستی حکومت نے کنگن واقعہ کی مجسٹریٹ کے ذریعے تحقیقات کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔اس دوران قصبہ میں تشدد بھڑک اٹھنے سے پولیس کے ایک افسر سمیت 10افراد زخمی ہوئے۔کنگن کا نوجوان گاندربل میں ایک دکان پر بطور سیلز مین کام کرتا تھا۔واضح رہے کہ پولیس نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ مذکورہ نوجوان ڈرین میں گرنے کے دوران زخمی ہوا تھا تاہم اب اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اسے سر میں نزدیک سے پیلٹ چلائے گئے تھے۔
واقعہ کیسے ہوا؟
سوموار کو فورسز پر معمولی پتھرائو ہوا تھا اور فورسز نے نوجوانوں کا تعاقب کیا جس کے دوران 22سالہ گوہر احمد راتھر ولد عبدالرحمان ساکن وانی محلہ کنگن زخمی ہوا جسے ٹراما ہسپتال کنگن پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروںنے اس کی حالت نازک قرار دے کر مزید علاج و معالجہ کیلئے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا جہاں 24گھنٹے تک انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہنے کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گیا ۔ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے میڈیکل سپر انٹنڈ نٹ ڈاکٹر فاروق جان نے اس بات کی تصدیق کی کہ مذکورہ نوجوان کے سر میں شدید چوٹیں آنے سے اس کی موت واقع ہوئی ۔ اسے سوموار کی رات سے ہی ونٹی لیٹر پر رکھا گیا اور منگل کی سہ پہر اسکے فوت ہونے کی تصدیق ہوئی۔
لواحقین اور پولیس بیانات
مذکورہ نوجوان کے لواحقین کے مطابق گوہر کے سر میں 2پیلٹ پیوست ہوئے تھے جس کی صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں تعینات ڈاکٹروں نے پہلے ہی تصدیق کی تھی ۔گوہر احمد کے رشتہ داروںنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سوموار کو پولیس نے پتھرائو کے معمولی واقعہ کے بعد تعاقب کے دوران گوہر کے بھائی دانش احمد راتھر کو دبوچ لیا گیا ۔چھوٹے بھائی کو چھڑانے کیلئے گوہر نے پولیس سے مزاحمت کی۔رشتی داروں اور ہمسائیوں کا کہنا ہے کہ مزاحمت کرنے پر گوہر کو نزدیک سے پیلٹ کا نشانہ بنایا گیا اور وہ خون میں لت پت ہوکر گر پڑا۔جس کے بعد پہلے اسے ٹراما اسپتال اور بعد میں صورہ منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھا۔ ادھر پولیس نے سوموار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ مذکورہ نوجوان تعاقب کے دوران جامع مسجد کے قریب نالی میں گر کر زخمی ہوا اور لوہے کی راڑوں سے اس کے سر میں شدید چوٹیں آئیں۔ پولیس نے پیلٹ کا استعمال کرنے کے الزام کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ سنگباری کے دوران پولیس نے اس طرح کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی ۔
کنگن کی صورتحال
مذکورہ نوجوان کی ہلاکت کی خبر جونہی کنگن قصبے اور اسکے ملحقہ علاقوں میں پھیل گئی تو لوگوںنے غیر اعلانیہ کرفیو توڑ کر آزادی و اسلام کے حق میں نعرے بازی شروع کی جس کے دوران پولیس و فورسز اور نوجوانوں کے مابین تصادم آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد نے پولیس و فورسز پر سنگباری شروع کی اور کئی مقامات پر فورسز کو الجھائے رکھا۔مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور شلنگ کی گئی۔ جس کے دوران 22سالہ محمدعامر حمید لون ولد عبدالحمید ساکن چھتر گل کنگن اور عبدالرشید خان ولد غلام قادر ساکن کنگن شدید طور پر زخمی ہوئے جنہیں ٹراما اسپتال پہنچا یا گیا جہاں سے ان کومزیدعلاج و معالجہ کیلئے صورہ اور بون اینڈ جوائنٹ اسپتالوں کو منتقل کیا گیا ۔ کنگن قصبے میں کافی دیر تک طرفین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں ۔میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹریاسمین قانگو نے تصدیق کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محمد عامر کے سر میں شدید چوٹ آئی ہے جبکہ عبدالرشید خان کے بازو میں چوٹ آئی ہے اس کے علاوہ 8 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ۔
مجسٹرئیل انکوائری
واقعہ کی مجسٹریٹ کے ذریعے تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر گاندربل پیوش سنگلا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ واقعہ کی انکوائری کی جائے گی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر گاندربل شہنواز حسین بخاری کو تحقیقاتی افسر بنایا گیا ہے جو ضلع انتظامیہ کو 20روز میں رپورٹ پیش کریں گے۔انہوں نے مزشید کہا کہ رپورٹ آنے کے بعد ملوثین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
لوگوں کا احتجاج
گوہر احمد کی لاش کو کنگن کے لوگوں نے دفنانے سے انکار کرتے ہوئے لاش بازار میں رکھ کر دھرنا دیا۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ رات دیر گئے تک وہیں پر احتجاج کررہے تھے۔انکا مطالبہ تھا کہ واقعہ کی مجسٹریٹ کے ذریعے انکوائری کی جائے، کیس سے متعلق ایف آئی آر درج کی جائے اور ملوث پولیس اہلکار کو گرفتار کیا جائے۔لوگوں نے گوہر کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گوہر کو بدھ کی صبح دفنایا جائے گا۔