سلاسل، قید، زنجیریں، ضعیف العمر قیدی میں
شرابی، چور، ڈاکہ زن، لٹیرے، ڈان اور راہزن
نہیں کوئی سلاخوں میں، رقیق القلب ساتھی ہیں
جواں، بوڑھے اور بچے بھی طبیعت جن کی پختہ ہے
غلط کاموں سے خائف ہیں، ضمیر جن کے سلامت ہیں
قریبُ المرگ قیدی میں، ہزاروں میں سپاہی ہیں
چراغِ سحر ہوں جیلر، ہے مجھ سے خوف کیا ڈرنا!
مگر میں بجھ ہی سکتا ہوں، ہے جھکنا کیا اور بِکنا کیا!
مری بوسیدہ ہڑیوں میں، جوانوں کی حرارت ہے
صبح کی آرزو ہے بس ہوں میں جس کے لئے زندہ
کبھی توپوں تفنگوں سے، کبھی ظلم و جہالت سے
صعوبت کیا ہے ظلمت کی، میں پُردم ہوں عزائم میں
صبح کی یہ ہوا اصغرؔ پیامبر میری گر ہوگی
کہے میرے جوانوں سے، صبح آنی ہے لازم اب
کرالہ ٹینگ، سوپور،
موبائل نمبر؛8493014235