سرینگر //سانبہ امرگڑھ 400کے وی ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کی زد میں آنے والے درختوں کے معاوضے کی وصولی میں سرکار نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت کنجوسی سے کام لیا ہے ۔سرکار کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس لائن کی تعمیر کے دوران معاہدے کے تحت کاٹے جانے والے 41ہزار درختوں کی قیمت صرف90کروڑ روپے لگائی گئی اور اس کا اگر تناسب نکالا جائے تو ایک درخت کی قیمت صرف 21ہزار 7سو روپے بنتی ہے اور یہ سفیدے کے درخت کی قیمت سے بھی انتہائی کم ہے ۔محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ جنگل میں دیودار اور دیگر اقسام کے پیڑ ایک انمول خزانہ ہیں اور اُن کی قیمت مقرر ہی نہیں کی جا سکتی اور اگر ان کی قیمت لگائی جا ئے تو وہ 50ہزار سے 70ہزار بنتی ہے کیونکہ یہ درخت صرف لکڑی کا کام نہیں دیتے بلکہ تاز ہ ہوا اور آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس معمولی رقم سے جنگلات کے نقصان کی بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔معلوم رہے کہ400کے وی سانبہ امرگڑھ ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے دوران ریاستی سرکار نے سٹر لائٹ کمپنی کو لائن بچھانے کیلئے پونچھ ، ،کٹھوعہ ، جموں ، ریاسی ، نوشہرہ ، راجوری ، پونچھ ، شوپیاں ، ہر پورہ شوپیاں اور پیر پنچال کے جنگلات سے کل 41240درختوں کو کاٹنے کی منظوری دی تھی اور کمپنی نے سرکار کو 89کروڑ 48لاکھ 52ہزار 3سو 12روپے کی رقم فراہم کی ہے ۔کمپنی کے مطابق انہوں نے اگرچہ41ہزرار درختوں کو کاٹنے کی رقم دی ہے لیکن انہوں نے صرف 11ہزار 2سو3درخت ہی کاٹے اور قریب 30ہزار درختوں کو بچا لیا گیا ۔ماہرین کے مطابق پہلے تو جنگلات کو بچانا ماحولیات کی خاطر اہم ضرورت ہے اور سرکار کو بھی اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے بہت کم مقدار میں درخت کاٹنے کا عمل شروع کرانا چاہئے تھا ۔ماہرین کے مطابق ریاست میں کوئی بھی پروجیکٹ شروع کرنے سے قبل اُس کی سروے تین چار بار کی جانی چاہئے تھی لیکن یہاں ایک ہی بار عارضی طور پر سروے کر کے جنگلی جانوروں کی پناہگاہوں سے لیکر جنگلات کا قتل عام کرایا جاتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق ریاست میں پہلے بھی کئی سارے بجلی پروجیکٹ اسی طرح بنائے گئے۔پھر اُن کی بجلی بیرون ریاستوں کو فراہم کی گئی اور اس بار بھی ایسا ہی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جنگلات میں کٹے ایک درخت کی قیمت قریب 50 ہزار سے 70 ہزار ہونی چاہیے تھی۔کیونکہ ایک دیودار 70سال کی عمر میں شباب پر ہوتا ہے اور 130سال تک اسکی عمر ہوتی ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیات کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اور اس جانب کسی کا دھیان نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک پیڑ کی جگہ جہاں دس گنا زیادہ پیڑ لگانے کی ضرورت ہے وہیں ایک پیڑ کی دس گناہ زیاہ قیمت بھی حاصل کرنا ضروری ہے اور اس پیسے کو جنگلات کی نئی پلانٹیشن پر صرف کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جو رقوم مختلف محکموں کو دی گئی اسکا حساب کون رکھے، کہ محکمہ جنگلات، سوشل فارسٹری، اور وائلڈ لائف نے کتنی پلانٹیشن کی ہے۔