الیہ برسوں میں گائوں دیہات سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کی وجہ سے قصبوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہواہے اور تشویشناک بات ہے کہ بیشتر قصبوں میں نئے مکانات کی تعمیر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہورہی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ سڑکیں اس قدر چھوٹی ہیں کہ آج لوگوں کو چلنے کی راہ بھی نہیں ملتی اور نہ ہی گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے کوئی گنجائش رہی ہے ۔نامساعد حالات ، بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت و بنیادی ضروریات زندگی اور ذریعہ معاش کی تلاش میں گائوں دیہات کی بہت بڑی آبادی قصبوں میں منتقل ہوئی ہے اور جس کو جہاں چند مرلے جگہ ملی اس نے مستقبل کی فکر کئے بغیر وہیں پر مکان تعمیر کرلیا لیکن آبادی میں اور اضافہ ہوجانے پر ان قصبوں میں رش بڑھ گیا اور کئی جگہوں پر لوگوں کیلئے چلنے کاراستہ تک نہیں رہا۔ایسے مناظر خطہ پیر پنچال و چناب کےقصبوں میں جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ اضلاع کی سطح پر بیشتر قصبوں میں نئی تعمیرات بغیر کسی منصوبہ بندی اور بے ڈھنگے طریقہ سے ہوئی ہیں اور متعلقہ حکام نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ لوگوں کوآج بھگتناپڑرہاہے ۔ ان قصبوں میں کئی جگہوں پر اس قدر تنگ گلیاں ہیں کہ ان میں سے گاڑیوں کی آمدورفت تودور کی بات کسی مریض کو چارپائی پر بھی اٹھاکر نہیں لیجایاجاسکتا۔یہ صورتحال دن بدن پریشانی کن بنتی جارہی ہے اور جوں جوں آبادی میں اضافہ ہورہاہے ،شہری علاقوں میں مسائل اور بڑھ رہے ہیں ۔ان قصبوں میں کئی مقامات پر ناجائز تجاوزات نے بھی پریشانیاں کھڑی کررکھی ہیں اورقبضہ کرتے وقت متعلقہ حکام نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ یہ کام بعض جگہوں پر افسران کی ملی بھگت سے انجام پایا۔موجودہ دور میں ہر کام منصوبہ بندی سے ہوتاہے لیکن گائوں دیہات سے شہروں میں ہجرت کرنے والی آبادی کی سکونت کے وقت مستقبل میں پیش آنے والی پریشانیوں کا خیال ہی نہیں رکھاگیا۔اگرچہ قصبوں میں تعمیراتی سرگرمیوں کو منصوبہ بندطریقہ سے انجام دینے کیلئے ٹائون پلاننگ دفاترکام کررہے ہیںلیکن ان دفاتر کا حال بھی بیان سے باہر ہے ۔اگرسرحدی اضلاع راجوری پونچھ کے حوالے سے بات کی جائے ا ن دو اضلاع کیلئے راجوری میں ایک دفتر چل رہاہے تاہم اس دفتر کو چلانے کیلئے درجہ چہارم کے ایک ملازم سمیت کل تین ملازمین تعینات ہیں جن کیلئے دونوں اضلاع کی سات میونسپل کمیٹیوں سندربنی،کالاکوٹ،نوشہرہ،راجوری ،تھنہ منڈی،سرنکوٹ اور پونچھ کی منصوبہ بندی کاکام کتنا مشکل ہوگااس کا اندازہ خود لگایاجاسکتاہے ۔اس دفتر میں اوسطاًیومیہ راجوری پونچھ سے پچاس سے ساٹھ معاملات ایسے آتے ہیں جن میں عمارات کی تعمیر کیلئے اجازت درکا ر ہوتی ہے اوران سبھی معاملات کو حل کرنے کیلئے موقعہ پر معائنہ کرکے این او سی جاری کرناپڑتی ہے جبکہ یہی دفتر ماسٹر پلان مرتب کرتاہے اور اسی کے ذریعہ مختلف ٹائون پلاننگ سکیموں کی عمل آوری بھی ہوتی ہے۔دفتر میں تعینات تین ملازمین میں سے اسسٹنٹ ٹائون پلانر ،ایک ڈرافٹس مین اور ایک درجہ چہارم کا ملازم ہے جبکہ کام کاج کو بہترطریقہ سے چلانے کیلئے سات سے آٹھ ملازم درکار ہیں جن میں ایک ٹائون پلانر،ہیڈ ڈرافٹس مین، دو ڈرافٹس مین، ایک ٹریسر ، ایک جونیئر اسسٹنٹ کاہونا ضروری ہے جن کی تعیناتی نہیں کی گئی ۔اسی طرح کا حال خطہ چناب اور دیگر پہاڑی اضلاع کا بھی ہے جہاں قصبوں میں آبادکاری بے ڈھنگ طریقہ سے ہوئی ہے ۔ماضی میں ہوئی غلطیوں کا تدارک تو نہیں کیاجاسکتالیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور منصوبہ بندی کاکہیں کوئی تصور نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل میں مسائل سے بچنے کیلئے آج سے ہی اقدامات کئے جائیں اور قصبوں میں آبادکاری سے قبل مناسب منصوبہ بندی اختیا رکی جائے جس میں سڑکوں کی تعمیراور دیگر ضروری باتوں کا بہر صورت خیال رکھاجائے ۔