عمہ کریانہ شاید ایک دہائی سے اس چھو ٹے بازار کا چھو ٹا سا دکاندار ہے،، کریانہ بیچتا ہے۔لیکن اس کے خریدار بھی کم ہی ہیں کیونکہ عمہ کریانہ کے مقابلے میں دوسرے دکاندار سستے داموں پر اپنا مال بیچتے ہیں۔ اس طرح اس کی سیل بھی کم ہی ہے اور وہی گنے چنے خریدار اس سے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ عمہ کریانہ ملاوٹ شدہ کوئی بھی چیز اپنی دکان پر نہیں رکھتا اور بس وہی اس کے خریدار ہیں جن کا معدہ اب بھی خالص مصالحہ جات ہضم کرسکنے کی حالت میں ہیں ۔ وہ ہلدی خود پسواتا ہے اور مر چوں کی پوڈر اپنی نگرانی میں تیار کرواتا ہےاس طرح چینی اور باقی مصالحے بھی اپنے حساب سے ہی کاٹ چھانٹ کے خریدتا ہے جو اس سے بھی بڑی مشکل سے کبھی کبھی ہی ملتے ہیں اور کبھی مہینوں اس کی دکان ان اشیاء سے خالی ہی رہتی ہے۔ میں اس کا مستقل گاہک ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کا زبردست عقیدت مند ہوں ۔پارسا ہے لیکن پا رسائی کا کوئی رنگ و روپ اس میں نظر نہیں آتا ۔ میں اُ سے درویش سمجھتا ہوں لیکن اس میں کوئی درویشانہ رنگ ڈھنگ نہیں ،کوئی دکھاوا نہیں اور ظاہر ہے کہ گھر کی حالت بھی کوئی ایسی نہیں ،بس مشکل سے ہی دو وقت کا گزارہ چلتا ہے۔میں اس سے اکثر کہتا ’’ عمہ صاب آپ کے بعد جنہوں نے یہاں دکانداری شروع کی وہ آج کئی کئی دکانوں کے مالک ہیں اُن کے پاس بنگلے ہیں۔ گاڑیوں میں چلتے پھرتے ہیں اور آپ ‘‘
عمہ صاب بس مسکرا کر رہ جاتا،پھر بڑی آہستگی اور بڑے نرم لہجے میں جواب دیتا ’’گھر چل تو رہا ہے بس شکر ہے اللہ کا ‘‘، میرے اب ان کے ساتھ گھریلو قسم کے مراسم بھی ہیں اس لئے آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ اس گھر میں کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے وہ سب کچھ تھا جو ہمارے گھروں میں نہیں ، سکون ، طمانیت ، اطمینان اور قلبی و ذہنی ٹھہراؤ۔ میں نے انہیں کبھی انتشار اور اضطراب میں نہیں دیکھا ۔اس لئے کبھی کبھی مجھے ان پہ اور اس گھر پہ رشک آجاتا ۔ایک صبح مجھے عمہ صاب کا فون آیا ،بس اتنا کہا تھا کہ ’’میرے پاس آؤ‘‘ میں فوراً دکان کی طرف روانہ ہوا،، یہاں اور بھی دس بارہ دکاندار کھڑے تھے ، پتہ چلا کہ آج رات عمہ صاب کے دکان کا تالا توڑا گیا ہے ،اور جو کچھ بھی یہاں تھا سب لوٹ لیا گیا ہے ۔ ’’یہ کیا ہوا کیسے ہوا‘‘ میں نے پوچھا اور میرے لہجے میں تشویش کچھ زیادہ ہی تھی۔ شاید میں صدمے سے دو چار تھا اس لئے کہ عمہ صاب ویسے بھی کوئی بڑا دکاندار یا سر مایہ دار نہ تھا ، اس کی ساری پونجی ہی یہ چھو ٹی سی دکان تھی ۔کیسے ہوایہ ۔تالا توڑا گیا ہے اور کیوں ہوا اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جس نے چوری کی ہے‘‘ عمہ صاب کے لہجے میں کوئی ارتعاش اور اضطراب نہیں تھا۔ لہجہ بالکل ویسا ہی تھا ، نرم اور ہونٹوں کی مسکراہٹ بھی وہی تھی جو اکثر اس کے ہونٹوں پر رہا کرتی تھی ،پھر خود ہی مجھے ایک طرف لے جا کر کہا ’’ دکاندار مجھے پولیس سٹیشن جانے اور رپورٹ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، میں اس کا قائل نہیں اور میرا مال بھی کوئی اتنا زیادہ تھا نہیں‘‘
’نہیں ۔ نہیں جانا ضروری چاہئے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مال زیادہ تھا یا کم میں نے عمہ صاب کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر کہا اور دوسرے دکانداروں کے ساتھ فوراً ہی پولیس سٹیشن کی طرف روانہ ہوا ، میرے ساتھ اور بھی کچھ دکاندار تھے ، عمہ صاحب ہم سب کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا ، بہر حال منشی جی کے پاس جانے کی ہدایت ہوئی ، میں خوش ہوا کہ یہاں دو چار پولیس مین داڈھی والے بھی تھے ، چہرے پہ اچھی خاصی رونق بھی تھی، اور سب سے زیادہ خوشی مجھے منشی جی کو دیکھ کر ہوئی ،کیا نورانی چہرہ تھا، کندھے پر وہ مخصوس ڈیڑھ گز کا چیک دار کپڑا بھی تھا، جو نمازی ہونے کا اعلان کرتا ہے ،، ۔۔’’ دیکھئے صاحب ۔ میرے پاس کاغذ نہیں اور پین بھی کہیں نظر نہیں آتا ‘‘ منشی شروع ہوا’’نہیں نہیں ۔جناب ،میں کاغذ کا انتظام کرکے ہی آیا ہوں‘‘ میں نے بات سمجھتے ہوئے فوراً ہی جیب میں ہاتھ ڈالا،،، اب منشی جی نے اپنے سامنے رکھے ہوئے صندوق سے کاغذ اور بال پین نکال کر لکھنا شروع کیا ،،،، میرے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک جوان سال دکاندار نے عمہ جو کوپیچھے کرکے لکھانا شروع کیا ،،،، ہلدی دو بوری ،،، عمہ جو نے کچھ کہنے کے لئے زباں کھولنا ہی چاہی تھی کہ میں نے اس سے اشارہ کرکے چپ رہنے کےلئے کہا، مرچ ایک بوری ،، کھانڈ ایک بوری اور اس طرح سے میرے اس جواں سال دکاندار نے بڑی محبت اور احترام کا اظہار کرتے ہوئے چوری کے مال کی تفصیل کچھ زیادہ ہی لکھائی، جو حقیقت نہیں تھی۔ اب منشی جی نے اپنا سر اٹھا کر عمہ کریانہ کو نزدیک آنے کا اشارہ کیا۔ہنس پڑا ۔۔ پھر ہنستے ہنستے ہی کہا ،، ’’ یہ بچے ہیں نہیں سمجھتے کہ سچ ہی بولنا چاہئے ۔یہ تفصیل درست نہیں ۔ عمہ صاب سنا ہے بڑے پارسا ہو ۔ درویش ہو لیکن اب اتنے بڑے درویش بھی تو نہیں کہ چوروں کو چوری سے ہی روک دو ،تمہارے مال کی تفصیل میں نے یہ لکھی ہے جو چوری ہوا ہے کہیں غلط ہو تو ٹوک دینا ‘‘ منشی شروع ہوئے ،، ’’ کھانڈ بیس کلو‘‘ عمہ صاب نے اقرار میں سر ہلایا ہلدی آدھی بوری ، مرچ خالص پندرہ کلو چائے تین قسم آدھ آدھ بوری ، نمک کی ایک بوری دکان میں ہی ہے چوروں نے ہی چھوڑ دی ، بادام تیس کلو ،کشمش پانچ کلو اور عمہ صاب صم ’’بکم‘‘ سر ہلاتا گیا ، ہم بھی حیراں اور متحیر کہ منشی کو اصل تفصیل معلوم ہوئی تو کیسے ؟’’میں نے درست لکھا ہے یا نہیں ‘‘ آخر پہ منشی جی نے عمہ صاب کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ، ’’جناب یہ با لکل صحیح اور درست تفصیل ہے‘‘ عمہ صاب کے لہجے میں تحّیر اور تجسس کے ملے جلے تاثرات صاف جھلک رہے تھے ’’ٹھیک ہے تحقیقات ہوگی ا ور کہیں سے چور پکڑا گیا تو مال واپس کیا جائے گا‘‘ ۔سب واپس جانے کے لئے مڑے ،، مجھ سے رہا نہیں گیا ،، پوچھ ہی بیٹھا ’’جناب عالی ۔ آپ کو یہ تفصیل کیسے معلوم ہوئی ، میں حیران ہوں ‘‘کہ شہر میں ہم سے بھی بڑے پیرو مرشد بیٹھے رہیں ، سبحان اللہ‘‘۔ ’’یہ ہمارا کشفی کمال ہی سمجھو ‘‘ منشی جی اپنے چیک دار کپڑے سےچہرے کی نورانی داڑھی کو صاف کرتے ہوئے اور ہنس پڑے ۔
……………………….
فون نمبر9419514537