ابونعمان محمد اشرف بن سلام
پانچویں صدی ہجری کا زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے،جسے مسلمانوں کے انتہائی عروج ،خوشحالی اور کرئہ ارض کی کوئی قوم مسلمانوں کی ہمسر نہ تھی۔بغداد عالم اسلام کا مرکز اعصاب اور علوم فنون کے اعتبار سے دنیا کے لئے پُر کشش حیثیت اختیار کر چکا تھا۔جہاں مسلمان قوم ان بلندیوں کوچھو رہی تھی و ہی بیرونی نظریات وخیالات کی یلغار اس کے یقین واعتمادکی دیواریں بھی تیزی کے ساتھ کھوکھلی کر رہی تھی اورضرروت تھی کہ قدرت اپنی فیاضی سے کوئی ایسی شخصیت پیدا کرے جو اپنے قدوقامت میں صدیوں پر بھاری ہو اور جو اپنے ایمانی جذبے اور غیر معمولی صلاحیت سے اس دھارے کا رخ بد ل ڈالے۔اللہ تعالیٰ کی فضل کرم سے امام شریعت،سیداوّلیا محبوب سبحانی ، سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ یکم رمضان المبارک بروز جمعہ کے دن 470ھ بمطابق 1075ءکو جیلان میں تولد ہوئے۔ پیر پیران شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ تاریخ اسلام کے چمن سے ایسا عطرگلاب کھلا جس نے اپنے خوشبو ئے سے روخانیت اور طریقت سے سارے عالم کو مہکادیا ہے۔ اورعلوم کی تاریخ میں حضرت غوث اعظمؒکی شخصیت اتنی جامع اور نمایاں حیثیت کی حامل ہے کہ تمام علماءوانشوروں اور عرفا آپؒ سے حضوصی عقیدت رکھتے ہوئےآپ کی شحضیت اور علمی مرتبہ کی بھر پور ستائش بھی کی ہے اسلام کے ناور فقہا اور عظیم المرتب وانشمنددں نے غوث اعظمؒ کی علمی عظمت اور فیضل وکمال کو عدیم المثال قرار دیا ہے۔ روشن ہونے والے اس چراغ نے اندھیرں میں روشنی پھیلائی۔آپ ؒحضرت سید ابوصالحؒ بن عبداللہ اور حضرت فاطمہ بنت عبداللہ معی کے گھر تولد ہوئے۔ انہی دو نیک ہستیوں کے چمن سے یہ عطرگلاب کھلا جس کی خوشبو ئے آج تک جاری ہے اور انشاءاللہ تاروزِآخر تک رہے گی ۔
مگر شومئی قسمت آج جب ہم کسی ولی کامل کا بھی تذکرہ کرتے ہیں تو ہمار ا اجتمامی مزاج اس طرح بن چکا کہ ہم صرف ان حضرت کی کرامات کوہی بیان کرتے ہیں ،اور انہیں کرامات کو دیکھ کر اس ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے لگتے ہیں۔ہم صرف اولیاءکی کرامات کو محدود نظر نہ رکھیں بلکہ ا ن کی حیات زندگی کے تمام پہلوؤں کا بھی مطالعہ کریں کہ ان کا علمی، فکری، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار رہا ہے ۔ حالانکہ حیات مبارک ان کی زندگی کا صرف ایک گوشہ ہے ،لیکن اسے اتنی کثرت سے بیاں کیا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت اس کے مقابلے میں دب جاتی ہیں۔ ہمارایہی افسوسناک رویہ سیداوّلیا حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒکی شخصیت کے ساتھ بھی کار فرما نظر آتا ہے۔اولیا ءاللہ انسانیت کے محسن ہوتے ہیں۔ہمیں ان محسنوں کو بھلانا نہیں بلکہ بہتر انداز میں یاد رکھناچاہئے تاکہ آنے والوں کو ترغیب ہو،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوسروں کو اپنے علم، اپنے عمل، اپنے مال اور اپنی جان سے فائدہ پہنچایا ، ان کا ذکر خیر رہتی دنیا تک قائم ودائم رہے گا۔ ایسے ہی الوعزم لوگوںکے کارناموں کے ذکر سے تاریخ دنیا سے پرُ ہیں۔ جن سے بے شمار نصیحتیں حاصل کی جا سکتی ہیں اور کی جانی چاہئیں۔
اللہ تبارک و تعالی جب اپنے کسی بندے سے کوئی خاص اور اہم کام لینا چاہتا ہے تو جہاں ایک طرف اس کام کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی آسان کرکے ہر آزمائش میں کامیاب بھی بناتا ہے، یہی کچھ حضرت شیخ الامام عبد القادر رحمہ اللہ کے ساتھ بھی ہوا کہ طلب علم کی راہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،جیسے وطن سے دوری، بھوک و پیاس اور تنگ دستی۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے پائے ثبات متزلزل نہ ہونے پائے، حضرت غوث اعظم ؒخود بیان کرتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانہ میں بسا اوقات خرنوب نامی کانٹے دار درخت، سبزیوں کے گرے پڑے ٹکڑے اور خس کے پتے کھا کر گزارہ کرتا تھا۔آپؒؒ جس دور میں بغداد آئے اس وقت اسلامی سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ پہلی صلیبی جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی ابتری کے ساتھ اخلاقی پستی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ عالم اسلام کی حالت ابتر تھی۔ باطنی، بدعتی فتنے اپنے عروج پر تھے۔ خلق قرآن اور تقدیر وغیرہ کے مسائل نے لوگوں کے ایمان کومتزلزل کر دیا تھا اور رہی سہی کسر علمائے سوء اور نام نہاد صوفیاءنے پوری کردی تھی اور منافقت چہار سو تھی ۔ایسے وقت میںسیدناشیخ عبدالقادرجیلانی ؒ نے احیائے دین کے لیے جدوجہد شروع کی اور اصلاح کے کام کا آغاز کیا۔ اپنے وعظ و نصیحت،درس و تدریس وغیرہ سے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کردی۔ شرک کے خلاف جہاد کیا۔ عالم اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی ۔
سلطان الاولیاءسیّدنا محی الدین عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ غنیتہ الطالبین میں اہل مجاہد ہ ،اہل محاسبہ اور اہل قصدکی دس خصلتیں لکھی ہیں، یہ دسویں خصلت جو تواضع پرہے۔ جس سے عابد کامقام مضبوط ہوجاتاہے۔اللہ تعالےٰ اور لوگوں کے نزدیک اس کا درجہ کامل اور بلند ہوجاتاہے ،دنیا اور آخرت کے جن کاموں کی کوشش کرے ان پر قادر وتوانا ہوتاہے۔ یہ صفت ساری خصلتوں کی جڑ ہے بلکہ ساری عبادتوں کا ایک درخت ہے ،شاخ دین ،اس خصلت کے طفیل آدمی کو وہ مقام نصیب ہوتا ہے جو ہر حال یعنی خوشی وغم میں راضی بہ رضائے حق رکھتا ہے۔یہ خصلت پرہیزگاری کا کمال ہے۔تواضع کے معنی یہ ہیں ’کہ ہر آومی کو ہر لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھا جائے اور دل میں یہ خیال کیا جائے کہ یہ شحض خدا کے نزدیک مجھ سے بہتر اور برتر ہے ،خواہ وہ اس سے کم تر ہو ،وہ یہ سمجھے کہ اس نے خدا کی نافرمانی نہیں کی اور میں نے نافرمانی کی ہے ،اس لئے بلاشبہ یہ مجھ سے بہتر ہے۔اگر وہ شخص اس سے بڑا ہو تو یہ خیال کرے کہ اس نے عبادت واطاعت الہی کی ہے ،اگر عالم ہوتو اسکے بارے میں یہ خیال کرےکہ اسے اللہ نے روشنی عطا فرمائی ہے اور میںخودباطن ہوں علم کی نعمت سے محردم ہوں میرے افعال نادانستہ اور جاہلانہ ہیں اور اس شحض کے کام عاقلانہ اور عالمانہ ہیں ،اگر وہ جاہل ہو تویہ سمجھے یہ شخص توجہالت کے باعث نافرمانی کرتاہے مگر میں علم کے باوجود گناہ کرتا ہوں اور مجھے میرے انجام کاعلم نہیں کہ کیا ہوگا۔ دراصل یہ خصلت شفقت اور ترس کا دروازہ ہے ،عاقبت کےلئے بہترین توشہ ہے اور آخران چیزدں کی ہے جن کا اثربندہ پر باقی رہتا ہے ایسی خصلت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے وہ خدا کی مدد سے نصیحتوں کی منزلیں طے کرتا ہے خدا کے برگزیدہ دوستوں میں شامل ہوجاتاہے۔یہ خصلت رحمت کا دروازہ ہے اگر راہ تکبر کو طے کرکے رشتہ کو کاٹ دے اور جاہ وجلال کا خیال دل سے نکال دے تو یہی عابددں اور زاہدوں کی بزرگی ہے۔عابددں کی خاص علالت یہی ہے اس سے بزرگ کوئی شے نہیں مگر اس کے بادجود اپنی زبان کو عالموں کے ذکر سے روکے ۔یہ مرحلہ اس وقت تک طے نہیں ہوتا ۔جب تک یہ خصلت حاصل نہ ہوجائے یعنی کینہ ،نافرمانی اور تکبر کو دل سے نکال دے ۔ظاہر وباطن اور ہرحال میں اس کی ژبان یک طرفہ ہو ۔ظاہروباطن میں اس کا قصد بھی ایک ہی ہو کسی کو نصیحت کرنے والانہ ہو ۔ اگر لوگوں میں سے کسی کو کسی کی برائی کرتا سُنے یا اس کے ساتھ خود بھی برائی کرنے میں شریک ہو یا کسی کی برائی سن کر اس کا دل خوش ہوتویہ امر عابددںاورزاہددں کی سعادت کو ختم کردیتا ہے جن لوگوں کو خدانے توفیق دی ہے کہ وہ اپنی زبان کو نگاہ میں رکھتے ہیں اور اپنی رحمت سے خدانے انکے دل منور کردیے ہیں ،وہ ان باؤں سے بچتے ہیں۔‘‘
’’فتوح الغیب لکھتے ہیں ۔توحید عبادت اور شرک عادت ہے۔ اس لیے تو عبادت کو لازم پکڑ اور عادت کو چھوڑ دے۔جب تو خلافِ عادت کرے گاتو تیرے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی خلافِ عادت برتاو ¿ ہوگا اور تو اپنی حالت میں تغیر کر تاکہ اللہ تیری حالت میں تغیر فرمائے۔ بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ہے جب تک کہ وہ اپنے نفوس کی حالت کو نہ بدلے۔ ‘‘(الفتح الربانی۔مجلس44)
اللہ کے سوا ہر شے غیر اللہ ہے تو اللہ کے مقابلے میں غیر اللہ کو قبول نہ کر اس لیے کہ اس نے تجھے اپنے لیے پیدا کیا ہے ۔غیر اللہ میں مشغولیت ومحویت کی وجہ سے اللہ سے اعراض کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کر ورنہ اللہ تجھے ایسی آگ میں جھونک دے گا جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔‘‘
اسی طرح یہ آسمان تصوف کے درخشدہ آفتاب ،اسلام کے جان نثار مبلغ ،شریعت کے علمبردار طریقت ومعرفت کے رہبر، مجلس روحانی کے سردار اورسلطان الاولیاءسیّدنا محی الدین عبد القادر جیلانی غوثِ اعظم دستگیر رحمتہ اللہ علیہ 11ربیع الثانی 561ہجری بروز ہفتہ91سال کی عمرشریف پاکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ اناللہ وانااللہ راجعون
پتہ۔اوم پورہ بڈگام،کشمیر
موبائل۔ 9419500008
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)