سرینگر// مشترکہ مزاحمتی قیادت نے اولڈ ٹاؤن بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے پیدائشی طور پر اپاہج نوجوان تنو یر احمد وار ولد محمد شعبان وار پر دوسری بار سیفٹی ایکٹ لگانے پر عالمی بشری حقوق اداروں ے نام مکتوب روانہ کیا ہے جس میں تنویر پر پولیس کے الزامات کو شرمناک رویہ پر پردہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔سید علی گیلانی ،میرواعظ محمد فاروق اور محمد یاسین ملک نے پیر کو ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ،اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے نام مکتوب روانہ کیا جس میں کہا گیا ’’35برس کا جوان سال تنویر احمد وار ولد محمد شعبان وار ساکن اولڈ ٹائون بارہمولہ ‘ پیدائشی طور پر معذور ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے،جبکہ جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ یہ شخص مذید کئی بیماریوں میںبھی مبتلا ہے اور لگاتارادویات لینے پر مجبور ہے‘‘۔ مکتوب میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس معذور و علیل نوجوان کو کشمیر پولیس نے21ستمبر2017 کو گرفتار کیا،اور’’ قریب دو ماہ تک اسکا ٹارچر کرنے کے بعد من مانے قانون پی ایس اے کے تحت کپوارہ جیل بھیج دیا گیا‘‘۔ مکتوب میں مزید کہا گیا ہے کہ تنویر احمد نے اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور ہائی کورٹ نے اس پر عائد پی ایس اے کالعدم قرار دیتے ہوئے ‘اُسے رہا کردینے کے احکامات صادر کئے،تاہم عدالتی احکامات پرمعذور انسان کو رہا کردینے کے بجائے پولیس اور سول انتظامیہ نے اس پر ایک اور بار سیفٹی ایکٹ نافذ کردیا اور اسے کورٹ بلوال جیل جموں منتقل کردیا گیا۔مشترکہ مزاحمتی قیادت کے مطابق رواں ماہ کی3تاریخ کو میڈیا میں اس کے حوالے سے خبر چھپی تو دوسرے ہی دن پولیس نے اس خبر کا توڑ کرتے ہوئے بیان میں اس معذور شخص پر بیشمار الزامات عائد کئے ،جبکہ اس پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ معذوربارہمولہ ضلع میں امن و قانون کو درہم برہم کرنے میں اہم کرداررہا ہے۔خط کے متن میں کہا گیا ’’ پولیس نے اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے اپنے ٹراسیکل(Tricycle) پر جھنڈے چڑھا کر لوگوں کو احتجاج کرنے پر اُبھارا تھا اور یہ بھی کہ اس نے اپنی گینگ کے ساتھ مل کر چار ٹرکوں کو ہائی جیک کیا اور ان سے پتھر اتار کر سڑکوں پر ڈال دیا تاکہ پولیس کو شر پسندوں کے تعاقب سے روکا جاسکے‘‘۔ خط میں مذید لکھا گیا ہے کہ حیران کن طور پر سرکاری حکام ایک جسمانی طور پر معذور و مجبور قیدی کو امن و امان کیلئے اس قدر خطرناک مانتے ہیں کہ ہائی کورٹ کی جانب سے اس پر عائد سیفٹی ایکٹ کو بار بار کالعدم قرار دئے جانے کے باوجود اسے رہا نہیں کیا جارہا ہے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ بچپن سے جسمانی طور پر ناخیز بارہمولہ کا یہ35سالہ شخص موبائل فون ٹاور پر جھنڈا چڑھانے،پتھروں سے لدے ٹرکوں کو ہائی جیک کرنے،بڑے بڑے پرتشدد جلوسوں کی قیادت کرنے اور حد یہ کہ ایک قدآور مزاحمتی قائد کو جبراً ایل او سی کی جانب مارچ کرنے پر مجبور کرنے کے جیسے الزامات پر
قید میں ہے۔ گیلانی،میرواعظ اور ملک نے کہا کہ پوچھا جاسکتا ہے کہ دو قدم چلنے سے معذور انسان کیسے ایک بلند ٹاور پر چڑھ کر جھنڈا لہراسکتا ہے اور کیسے بھرے ہوئے ٹرک لوٹ کر ان میں لدے پتھر سڑکوں پر بچھاسکتا ہے نیز کیونکر ہزاروں لوگوں کو لائن آف کنٹرل کی جانب مارچ کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا’’یہ حقیقت ہے کہ شہید شیخ عبدالعزیز2008 میں ہزاروں لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے ایل او سی کی جانب مارچ کررہے تھے لیکن ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیسے ایک معذور انسان ان ہزاروں لوگوں کو مارچ جاری رکھنے پر مجبور کرسکتا ہے جیسا کہ پولیس کا دعویٰ ہے۔ مشترکہ قائدین نے عالمی انسانی حقوق تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ کہ وہ ان معاملات کا نوٹس لیں،اور بروقت مداخلت کرے۔