برصغیر میں سرزمین جموں و کشمیر کا کشمیری زبان وادب کےساتھ ساتھ ارود ادب میں بھی ایک منفرد مقام ہے۔ اس سرزمین نے ایسے سپوت جنمے ہیں، جنہوں نے اپنے فن اورصلاحیتوں سےاس کا نام دنیا میں روشن کیا ہے۔ اِنہیں ذہین اور باصلاحیت سپوتوں میں سے وادی سے تعلق رکھنے والے کشمیری، اُردو اور ہندی کےشاعر، ادیب،محقق ،نقاد اور مترجم پیارے ہتاشؔ کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں سے اردو ادب وزبان میں اپنا لوہا منوالیا ہے۔ کشمیر کے اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے اس مایہ ناز شاعر اور اُستاد کا ایک شعری مجموعہ "سبزہ سے صحرا تک"اس وقت میری ہاتھوں میں ہے اور اسی پر آج میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔راقم کواس فعال،سنجیدہ اور پختہ کار کی شاعری نےکافی متاثر کیا ہے۔پیارے ہتاشؔ نےاپنے شعروں میں جس طرح روانی، سادہ اسلوب،استعارات وکنایوں سے کام لیا ہے،اُس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ شاعری کی سبھی تکنیک سے آگاہ ہیں۔ اس شعری مجموعے میں آپ نے پُردرداور جگر کو چاک کرنے والی شاعری پیش کی ہے۔ پچھلی کئ دہائیوں سے وادی کے حالات کافی دگرگوں ہیں اور ان دگرگوں حالات کی ایسی عکاسی کی ہے جو آنے والی پیڑیوں کےلئے کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے، آپ نے بہت ساری غزلوں میں نفرتوں کے دیواروں کو گرانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور آپسی بھائی چارے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں؎
ہر اک کے واسطے ہم دل میں پیار رکھتے ہیں
فضائے زندگی کو پھر خوشگوار رکھتے ہیں
پیارے ہتاش اپنے ہمعصر شاعروں سے بہت آگے نظر آرہے ہیں۔ آپ ایک نیک دل، ملنسار، پُر حوصلہ اور محبِ انسانیت شخصیت ہیں اور آپ کی شیریں زبانی نےآپ کی شاعری میں مٹھاس پیدا کی ہے۔ آپ کے آج تک جتنے بھی مجموعے منظر عام پر آئے ہیں، وہ سبھی تنقیدی سطح پر کھرے اُترے ہیں۔ ان کے کلام کو جتنے بھی نقاد نے پڑھا اور جانچا سبھی نے ان کی شاعری کی تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔’’سبزہ سے صحرا تک‘‘ کے علاوہ لمحات گُمشدہ، کرب وجود، گردش ایام، یادِ زعفران، لہو لہو آنگن، حال ِزار جیسے شاہکار مجموعے بھی طبع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں اور اس شاہین صفت انسان نے کبھی پیچھے نہیں دیکھا بلکہ روز بروز نئے نئے شاہکاروں کو ہمارے سامنے لاتے رہے ہیں۔ مہاجرت کی وجہ سے آپ حوصلہ شکنی کے شکار نہیں ہوئے بلکہ آپ نےعزم اور دریا دلی کا مظاہرہ کرکے اپنی مثبت سوچ پر اُس کا اثر ہونے نہیں دیابلکہ اپنی مثبت سوچ کی وجہ سے ہی آپ اس آس میں بیٹھے ہیں کہ ہمارے ویران چمن میں بہار ضرور آئے گی اور ہم اپنے وطن عزیز کو ضرور واپس لوٹیں گے اور یوں رقمطراز ہیں ؎
دور تک نظروں میں چھائے گی بہار کب دل ویراں میں آئے گی بہار
دیکھنا تم جب بھی آئے گی بہار ساتھ اپنے خوشبو لائے گی بہار
ایک قلمکار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے قوم، ملت یا ہم وطنوں کی ترجمانی کرتا ہے، چاہے وہ ترجمانی نظموں کی صورت میں ہو یا نثروں کی صورت میں۔اسی طرح سے پیارے ہتاش کی شاعری بھی کشمیری قوم کی ترجمانی کرتی نظر آرہی ہے۔جب میری نظر ’’سبزہ سے صحرا تک‘‘ پر پڑھی تو ایسا لگا کہ یہ نام اس کےلئے موزون نہیں ، مگر جب اس کتاب کی گہرائیوں میں اتر گیا تو لگا کہ اس کا نام اس میں شامل غزلیات کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے، اس کے پیچھے ایک مقصد ہے اور باحس وباہوش قلمکار حضرات اس سے ضرور واقف ہوں گے، سبزہ وصحرا تک کا معنی ان اشعار میں اخز ہے؎
ایک مدت سے جستجو کیا ہے کیا کہوں دل میں آرزو کیا ہے
عمر کٹتی ہے جھونپڑوں میں بھی مال وزر کی پھر آرزو کیا ہے
بارہا سوچتا ہوں وادی کشمیر میں ایک دہشت سی چارسو کیا ہے
پیارے ہتاش بھی باقی لوگوں کی طرح وادی کے خون خرابے سے واقفیت رکھتے ہیں اور اس خون خرابے کو روکنے کے خواہاں ہیں تاکہ یہاں پھر سے امن وآشتی قائم ہو، یہاں پہلے کی طرح پھر سے گُل وبلبل کے قصے میٹھی غزلوں کی شان بنیں ۔چنانچہ یہاں کے شاعر اورقلمکار یہاں کے خون خرابے، لڑائی جھگڑے، موت کے رقص اور خوف ودہشت کوہی موضوع بحث بنا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہاں اب بلبلیں نہیں آئیں گی مگر پیارے ہتاش نے ایسا لکھنے یاکہنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ انہوں نے مثبت طریقے سے قلم اٹھایا ہے اور مثبت سوچ رکھ کر لکھتے ہیں؎
یہ بھی انداز دوستی ہے اک ہم اُسے دشمنی نہیں سمجھے
اس کی محبتیں ہونگی ہتاش ہم اِسے دشمنی نہیں سمجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیش کو خوشگوار کرنا ہے صورت نو بہار کرنا ہے
اس کو دل کاقرار کرنا ہے صحرا کو سبزہ زار کرنا ہے
پیارے ہتاش مایوسی کے شکار نہیں ہوئے ہیںاور ایک باحوصلہ قلمکار یا شاعر ہمیشہ باحوصلہ ہی رہتا ہے۔ پیارے ہتاش نے ایسا کرکے دکھایا ہے۔ درس و تدریس سے وابستہ پیارے جی کی شاعری اور عملی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ آپ نے جتنے بھی شعری مجموعے طبع کئے ہیں، وہ سب مشاہدات سچے واقعات، تجربات اورحقائق پر مبنی ہیں، ان کی غزلیات میں عشقیہ شاعری کم مگر آپَسی منافرت کو دور کرنے کےموضوعات زیادہ مل رہے ہیں۔ اپنے قلم کو جنبش دیکر اپنے افکار اور خیالات کو غیر جانبدارانہ طور ہم تک پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے آپ معاصرین اردو ادب کے شعرا میں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنی غزلوں میں اپنے ویران وطن کو تباہ وبرباد کرنے والوں کے خلاف خاموش احتجاج کیا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ آپ نے صدائے احتجاج بلند کرکے ایک اہم انسانی فریضہ کو انجام دیا ہے اور کہتے ہیں؎
عصمتیں لوٹنے والوں نے ہمیں کیا دکھایا ہے نظارہ ہم کو
حق کی خاطر کہیں ہم جُھک جائیں یہ نہیں بات گوارا ہم کو
آپ کو اردو زبان وادب کے ساتھ بے لوث محبت ہے اور اسی محبت کے باوصف پے در پے بہت سارے مجموعے سامنے لاتے رہتے ہیں اور اپنی ان دُرِ نایاب کتابوں سے اردو زبان وادب میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ کی شاعری سے واضح ہورہا ہے کہ آپ نے نفرت کی دیواروں کو گرانے اور آپس میں شیر وشکر ہونے کا بیڑا اٹھایا ہے ، ہمیشہ سےمحبت کے چراغوں کو روشن کرنے کےلئے آرزو مند رہے ہیں۔ سبزہ سے صحرا تک کی طرح یاد زعفران میں بھی آپ نے اپنے وطن عزیز کی یاد کو تازہ کیا ہے اور اسی یاد کو اپنے لفظوں میں سمیٹ کر شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔آپ کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ آپ شاعری کے رموز وعروض سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں اور انہی کو اپنا کر اپنے شعر تخلیق کرتے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی شاعری معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ پُرمغز اور پرسوز بھی بن جاتی ہے۔آپ نے اپنی شاعری اور فنکاری سے ایک وسیع دائرے کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے سے محفوظ کرتے رہے، یعنی آپ کو لوگ ریڈیو اور ٹیلیویژن کی وساطت کے علاوہ اخبارات کے ذریعے سے بھی جانتے ہیں ۔ پیارے ہتاش واقعی پیارے ہیں جو ہر کسی کے چھوٹے بڑے کےساتھ پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں ۔جتنا پیار آپ لوگوں کو دیتے ہیں اس سے زیادہ پیار ان کو لوگوں سے مل رہا ہے۔ان کے شاعری بھی انہی کی طرح پیاری اور دل کو موہ لینے والی ہے۔ میں نے ان کے دو شعری مجموعے پڑھ لئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی شاعر ہے کہ جس نے عوام یا قارئین کے سامنے اپنی بات کھل کر سامنے لائی ہےاور اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پیارے ہتاش اس دور کے بلند پایہ کے شاعر وادیب ہیں ۔جو اُردو زبان و ادب کی سینچائی جی جان سے کررہے ہیں۔
(رابطہ۔7006259067 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔