پرویز احمد
سرینگر //غوثیہ ہسپتال خانیار روزانہ ایک ہزار سے زائد مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن بنیادی ڈھانچے اور نیم عملہ کی کمی کی وجہ سے ہسپتال کی کارکردگی پر سوالیہ لگتا ہے۔پولیس اسٹیشن خانیار کے نزدیک قائم 20بستروں پر مشتمل غوثیہ ہسپتال سرینگر کا واحد اسپتال ہے جہاں طبی نیم طبی عملہ کی 25فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ تین منزل بلڈنگ کی دوسری اور تیسری منزل میں غوثیہ ہسپتال کام کررہا ہے لیکن عمر رسیدہ افراد، حاملہ خواتین، امراض قلب اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کیلئے لفٹ کا کائی انتظام نہیں ہے جبکہ ہسپتال کی تنگ سیڑھیاں مریضوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ غوثیہ ہسپتال شہر خاص کے 3لاکھ سے زائد کی آبادی کیلئے محکمہ صحت کی جانب سے قائم کیا گیا دوسرا بڑا طبی ادارہ ہے لیکن یہ سب ضلع ہسپتال ہمیشہ سے ہی ضلع انتظامیہ اور محکمہ صحت کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ ہسپتال 10فٹ چوڑائی اور 15فٹ لمبائی والے 20کمروں میں کام کررہا ہے جو سال 2022میں ترمیم شدہ انڈین پبلک ہیلتھ معیارکے قوائد و ضوابط کے خلاف ہے۔ سال 2022میں ترمیم شدہ انڈین پبلک ہیلتھ سٹنڈارڈ کے مطابق ہر پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب ضلع اسپتال اور ضلع اسپتال میں شعبہ ایمرجنسی و حادثات ، جنرل میڈیسن، جنرل سرجنری اور دیگر شعبہ جات کا ہونا لازمی ہے لیکن ان قوائد و ضوابط میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر اسپتال میں کسی بھی
شعبہ کے قیام کیلئے 1500فی مربع فٹ کی جگہ ہونا لازمی ہے لیکن ہسپتال میں ہر شعبہ 150مربع فٹ کے چھوٹے کمروں میں کام کررہا ہے اور ان کمروں کو بھی ہسپتال کے مختلف کمروں تک جانے کیلئے بنائے گئے راستے کو بند کرکے بنایا گیا ہے۔ اسپتال کا ہر کمرہ پلاسٹک فائبرشیٹوں سے بنایا گیا ہے۔یہاں مردوں کے لئے بنائے گئے وارڈ میں 5بستر اور خواتین کیلئے 12بستر ہیں جو ایک دوسرے سے ایک فٹ کی دوری پر بھی نہیں ہیں۔ہسپتال میںسب سے بڑی مشکل لفٹ کا نہ ہونا ہے۔ یہاں مریضوں کو بغیر لٖفٹ تین منزلہ بلڈنگ پر چڑنا پڑتا ہے۔یہاں نیم طبی عملہ کی 42اسامیاں منظور شدہ ہیں جن میں 12خالی ہیں۔ جونیئر اسسٹنٹ کی ایک، ہیڈ لیب ٹیکنیشین کی ایک،جونیئر گریڈ نرس کی تین،جونیئرالیکٹرشین کی ایک، جونیئر ڈرائیور کی 2،نرسنگ آڈرلی کی 2،دھوبی کی وارڈ بوائے کی ایک اسامی خالی پڑی ہے۔ہسپتال کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر طارق جان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسپتال کو بنیادی ڈھانچہ اورعملہ کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم سہولیات کے باوجود بھی روزانہ ایک ہزار سے زائد مریضوں کا اندراج ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو دوسری اور تیسری منزل تک پہنچنے میں تکالیف ہوتی ہے کیونکہ لفٹ کا انتظام نہیں ہے۔