ایڈووکیٹ کشن سنمکھ داس
عصرِ حاضر میںعالمی سطح پر دہشت گردی ہر ملک کے لئے درد سر بنی ہوئی ہےاورآج تکاس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔ بھارت کے لئے بھی کئی دہائیوں سےیہ مسئلہ موجود ہے۔چنانچہ مختلف قرار دادوں کے تحت بنائے گئے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے نکسل ازم اور ماؤ ازم کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے 31 مارچ 2026 تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اس کارروائی کا ردعمل ایسا ہے کہ خوفناک نکسلائیٹ جن کے سروں پر لاکھوں روپے کا انعام ہے، ہتھیار ڈال رہے ہیں یا انکاؤنٹر میں مارے جا رہے ہیں کیونکہ سرکاری انتظامیہ کو مقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ دہشت گردوں نے 22 اپریل 2025 کو سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملہ کرکے 27 سیاحوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس بہیمانہ واقعہ کو کشمیر کے لوگوں بالخصوص پہلگام کے لوگوں نے انتہائی المناک قرار دیا ہے اور یہ پچھلے35 برسوںمیں پہلا موقع ہے کہ 23 اپریل 2025 کو جموں و کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی ،سماجی اور دینی جماعتوں و تنظیموں اور مقامی باشندوں نے اس واقعے کے خلاف آواز بلند کرکےنہ صرف احتجاج کیا بلکہ بندھ کی بھی کال دی تھی، یہاں تک کہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے لوگوں سے بند میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی۔ میں نے آرٹیکل رائٹنگ کے ذریعے میڈیا میں اپنے 40 سالہ کیرئیر میں ایسا احتجاج کا ماحول کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وادی کشمیر میں کئی حملے ہو چکے ہیں لیکن میںکشمیری عوام کی طرف سے ایسا احتجاج کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے عزیز دوست ،لال چوک سرینگرکےرہائشی رشید بھائی جو کہ مشہور پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا CNN کے چیف ایڈیٹر ہیں،اور جنہیں الیکٹرانک میڈیا کا بھی اچھا تجربہ ہے سے موبائل فون پر اس واقعہ کے حوالے سے معلومات طلب کیں۔انہوںنے مجھے کئی ویڈیو کلپس بھیجے، جن میں پہلگام کے مقامی باشندے اس واقعہ کے خلاف زوردار احتجاج کر رہے ہیں۔ اِن کلپس میں بہت سے نعرے جیسے ہم ہندوستانی ہیں، ہندوستان ہمارا ہے اور انڈین آرمی زندہ باد وغیرہ آسانی سے سنے جا سکتے ہیں۔ راشد بھائی کے بقول اس المناک واقعے سے ہر شہری دلبرداشتہ اور سخت ناراض ہے،نیز جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن رہنماؤں نے یک زبان ہوکر واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت و مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے، جب کہ مرکزی سطح پر بھی پوری اپوزیشن نے متحد ہو کر اس واقعے کے خلاف شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر پورے کشمیر کے باشندے، حکومت ہند، ہندوستانی فوج اور دنیا کے تمام ممالک اکٹھے ہوجائیں تو دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے،اور اس کی آخری تاریخ بھی نکسل ازم کے خاتمے کی طرح 31 مارچ 2026 مقرر کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کے اس واقعے کے خلاف جہاں 23اپریل پورا کشمیر بند رہا وہیں پہلگام سمیت کئی اضلاع میں مکین لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔ دہشت گردی کے خلاف نعرے بلند کئےاور’’ ہم ہندوستانی ہیںاور ہندوستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے لگائے۔ اگر ہم 35 برسوں میں پہلی بار کشمیر کے لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلنے آنے اور احتجاج کرنے پر بات کریں تو کشمیر سے کنیا کماری تک کے لوگ پہلگام کشمیر میں دہشت گردی کے اس واقعہ کے خلاف یکجا کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس گھناؤنے دہشت گردی کے واقعے نے ہر انسان کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا ہے۔جبکہ یہ پہلا موقع ہے جب کشمیری عوام کھُل کر دہشت گردوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ اس واقعے کے خلاف تمام جماعتیں، حکمران اور اپوزیشن متحد ہو گئے ہیں اور حریت کانفرنس جیسی تنظیم بھی نے بھی وادیٔ کشمیر میں بند کی کال دے دی تھی۔ ایک معروف انگریزی اخبار نے اپنے صفحہ اول کے اداریے میں کہا کہ یہ گھناؤنا واقعہ صرف معصوم لوگوں پر حملہ نہیں ہے بلکہ کشمیر کی شناخت اور اقدار، اس کی مہمان نوازی، معیشت اور امن پر بھی حملہ ہے۔جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کی ہر سیاسی،سماجی ،فلاحی ،دینی اور کاروباری تنظیم ،یہاں تک کہ علاحیدگی پسند شبیہ رکھنے والے سیاست دانوں نے کشمیر بند کال کی حمایت کی ۔وادی کی سیاست میں مضبوط موجودگی رکھنے والی جماعتوں بشمول حکمران نیشنل کانفرنس، اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، پیپلز پارٹی، اپنی پارٹی نے بھی وادی بند کی حمایت کی ہے۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین
میر واعظ عمر فاروق نے بھی دہشت گردی کے اس وحشیانہ واقع کے خلاف شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کرکے بندھ کال کی حمایت کی،اسی طرح مذہبی اداروں کی تنظیم متحدہ مجلس علماء نے بھی اس گھناؤنے واقعہ کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا،تمام تنظیموں کے رہنمائوں نے دہشت گردی کے اس واقعہ میں مارے گئے لوگوں کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی اسلامی برادری سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ہر کشمیری نے متاثرین کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھا نے کی حتی المکان کوشش کی ، ٹورسٹ ٹیکسی اسٹینڈ یونین نے اسٹینڈ کو رات دیر گئے تک کھلا رکھا، جو عموماً چھ سے سات بجے تک ہی کھلا رہتا تھا۔ ٹورسٹ ٹیکسی اسٹینڈ یونین سے وابستہ لوگ رات گئے تک ٹیکسی اسٹینڈ پر موجود رہے اور ویڈیوز جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ متاثرین کے لئے ہر قسم کے مدد اور اپنی خدمات پیش پیش رکھنےکے لیے تیار ہے۔
گاڑی، رقومات، موبائل فون، رہائش کے انتظامات ،کھانے پینےکا سامان اور زخمیوں کے لیے خون کی ضرورت پوری کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ٹیکسی یونین نے اس مقصد کے لیے نمبر جاری کئے تھے تاکہ مٹاثرین اُن سے بر وقت رابطہ کرسکیں۔اسی طرح کشمیر کے سرکردہ اخبارات نے اپنے صفحہ اول کو کالے رنگ میں چھاپے اور اس دہشت گردی کے واقعہ کے خلاف اپنے احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ انگریزی اور اُردو کے بڑے اخبارات جیسے گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر، کشمیر عظمیٰ، آفتاب، تمل ارشاد نے بھی اپنا فارمیٹ تبدیل کئے۔ حکام کے مطابق گزشتہ 35 سالوں میں پہلی بار کشمیر کے لوگوں نے کسی دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف اس طرح کی ’وادی بند‘ کی کال دی ہے۔ گویا اس بار دہشت گرد حملے پر کشمیریوں کا ردعمل مختلف نظر آیا اور کچھ چیزیں پہلی بار دیکھنے کو ملیں۔ 35 سال میں پہلی بار کشمیر کسی دہشت گردانہ حملے کے خلاف یکجا کھڑا ہوا اور متحد ہو کر احتجاج کیا گیا۔ دہشت گردی کے حملے میں جاں بحق ہونے والے 26 بے گناہوں میں سید عادل حسین شاہ بھی شامل تھے جو سیاحوں کو گھوڑے کی سواری فراہم کرتے تھے اور جب انہوں نے قاتلوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ’’میں ہندوستانی ہوں‘‘ کے نعرے دکانداروں اور ہوٹل والوں نے پہلگام میں ایک احتجاجی مارچ نکالا اور ’’ہندوستان زندہ باد‘‘ اور ’’میں ہندوستانی ہوں‘‘ کے نعرے لگائے، اور وہاں پھنسے ہوئے سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی ۔ دہشت گردی کے ساتھ طویل جدوجہد کے بعد وادی میں امن دیکھنے میں آرہا تھا اور پچھلے کچھ سال سے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے اس حملے کو ’’ انتہائی ناگوار‘‘ قرار دیا ہے۔ حملے کی خبر بریک ہونے کے بعد انہوں نے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا تھا،’’میں اس پر یقین نہیں کر سکتا کہ ہمارے مہمانوں پر ایسا حملہ گھناؤنا کیا جائے گا جو انتہائی ،وحشیانہ اور دردناک واقعہ ہے۔ اس حملے کے مرتکب درندہ صفت لوگ انتہائی قابل نفرت ہیں۔‘‘ بقول اُن کے مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں۔
(رابطہ۔9284141425)
[email protected]