حال واحوال
ندیم خان
پچھلے چند برسوں سے کشمیر میں سیاحتی سیزن میں پھر سے جان پڑتی نظر آرہی تھی توپہلگام میں دہشت گردوں کے حالیہ انسانیت سوزخونین واقعہ نےحالت کو یکسر بدل کے رکھ دیا ۔قاتلوں نے جان بوجھ کر پھر سے کشمیر کی سیاحتی صنعت کو جان کنی کی حالت میں پہنچادیا ہے تاکہ کشمیر میں جہاں معاشی بدحالی کا دور دوره قائم رہے وہیں بحالی امن کی حکومتی کاوشیں سبوتاژ ہوں اور عوام امن اور اطمینان سے جینے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں، وہ بھی چکنا چور ہو کر رہے۔22 اپریل 2025 کا دن کشمیر کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا، جس نے انسانیت کے دامن کو چاک کر دیا۔کچھ شیطان صفت درندوں نے پہلگام کے ایک حسین مقام پر دن کے اُجالے میں معصوم اور بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنا کر ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی مثال شاید ہی کسی ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں ملے۔کشمیر کے لوگ ہمیشہ اپنے مہمانوں کو ’’رحمت‘‘ سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہیں، ان کی حفاظت کو اپنے فرض سمجھتے ہیں۔ مگر اس دن نہ صرف انسانیت کو روند کو روند دیا گیا بلکہ کشمیری تہذیب و اقدار کو بھی زخمی کیاگیا۔ یہ وہ سانحہ تھا جس سے ہر کشمیری کی آنکھ نم ہوئی، ہر دل غمگین اور ہر زبان گنگ ہوکر رہ گئی۔ظاہر ہے ہمارے یہ مہمان صرف وادی کی خوشبو سونگھنے، بہتے نالوں کے سنگ نغمے سننے اور چنار کی چھاؤں میں دو پل راحت لینے آئے تھے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے نصیب میں صرف اندھی گولیاں اور بے رحم موت لکھی تھی۔حالانکہ وہ ہمارے مہمان تھے،مہمان تو رحمت ہوتے ہیں، جن کے آنے سے ہمارے یہاںکے بہت سارے لوگوں کے چولہے جلتے ہیں، دل کھِلتے ہیں اور دعائیں نکلتی ہیں۔ ہاں! یہ حملہ محض پہلگام میں آئے ہوئے سیاحوں پر نہیں ہی بلکہ ہماری تہذیب، ہماری کشمیریت، ہماری مہمان نوازی پر حملہ ہواہے۔ چنانچہ ہر دل میں یہ سوال بار بار ابھر رہا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہیں دوسروں کی خوشی برداشت نہیں ہوتی ؟ جو ہنستے چہروں کو ماند کرتے ہیں؟ جو ایک پرسکون وادی کو خوف کی گود میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟ وہ سیاح تو یہاں کی خوبصورتی دیکھنے آئے تھے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ کشمیر کے حسن میں گرفتار تھے۔یہ ایک ایسا ہولناک منظر تھا جس نے انسانی دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔28 کے قریب انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور معتدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔اس المناک سانحہ سے ہر کشمیری کی سانسیں تھم گئیں،یہ حملہ صرف انسانوں پر نہیں ہوابلکہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ ہم کشمیریوں نے ہمیشہ مہمانوں کو اپنے خاندان کی طرح سینے سے لگایا ہے۔ یہ زمین محض ایک خطہ نہیں بلکہ محبت کی ایک زندہ داستان ہے اور آج یہی داستان خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ اس حملہ میں محض معصوم انسانی جانوں کا قتل نہیں ہو بلکہ ہماری روایات، ہماری مہمان نوازی، ہماری کشمیریت اور ہماری انسانیت پر ایک بدنما داغ لگ گیا۔بے شک درندگی کی کوئی منطق نہیں ہوتی اور ظلم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ خواتین کی چیخ و پکار سے عام وخواص ملول و مضطرب ہے۔ ہر سو غم و الم کی آندھیاں تیزی سے گشت کر رہی ہیں۔کشمیر کی تاریخ میں ایسا پہلا واقع جب 28 بے گناہ اور معصوم سیاحوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا گیا۔ 28گھرانوں کے چشم و چراغ گُل کرنے والے ان درندوں نے انسانیت کو پائوں تلے روند ڈالا اور کشمیریت کو نیلام کیا۔ اس حملے سے ہر کشمیری کی کمر ٹوٹ چکی ہے، ہر گلی میں سوگ ہے، ہر علاقے میں ماتم ہے اور ہر شہر میں آہ و فغان ہے۔ پوری کشمیری قوم مطالبہ کرتی ہے کہ کشمیر کی مہان نواز قوم کو داغدار بنانے والے ان وحشی درندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچادیا جائے۔ کشمیری قوم ددد و الم سے چُور چُور ہوچکی ہے اور بار بار
سوال کرتی ہے آخر یہ خونِ ارزاں کیوں ہوا؟ اس المناک سانحہ خلاف اجتماعی طور آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہم کشمیری عوام اجتماعی اور انفرادی طور پر اس سفاکانہ عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم ان شیطان صفت درندوں کو نہ صرف کشمیری تہذیب کا دشمن سمجھتے ہیں بلکہ انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ بھی مانتے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو ہمیشہ سے کشمیر کی خوبصورتی، امن اور سیاحت کو بدنام کرنے پر تلے رہے ہیں اور جو نہیں چاہتے کہ دنیا کشمیر کی اصل مہمان نوازی کی تصویر دیکھے۔سیاحت کشمیر کی رگوں میں دوڑتا وہ خون ہے جس سے یہاں کی معیشت کو جِلا ملتی ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح کشمیر کی خوبصورتی، موسم، جھیلوں، پہاڑوں، مہمان نوازی اور ثقافت کا لطف اٹھانے آتے ہیں۔ یہ سیاح ہمارے لیے صرف مہمان نہیں بلکہ ہمارے دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے خاندان کا فرد سمجھتے ہیں اور جب ان پر کوئی آنچ آتی ہے، تو ہم خود کو زخمی محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر ایک ایسی وادی ہے جس نے دنیا کو شاہ ہمدان، شیخ نورالدین ولی اور ہر گاؤں میں موجو صوفی بزرگوں جیسے امن پسند ہستیاں دی ہیں۔ ہم نے صدیوں سے محبت اور امن کا درس دیا ہے اور آج بھی اسی نظریے پر قائم ہیں۔ ایک محدود طبقے کی درندگی ہمیں اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکتی۔ ہم امن کے سفیر ہیںاور ہمیشہ رہیں گے۔ ہم اپنے پیارے سیاحوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ کشمیر آج بھی اتنا ہی خوبصورت، محفوظ اور محبت بھرا ہے جتنا کل تھا۔ ہم اس المیے سے سبق سیکھ کر مزید پُرامن، محتاط اور بیدار ہوں گے۔
ہم اپنے مہمانوں سے کر کہتے ہیں کہآپ ہمارے لیے اہم ہیں، آپ ہماری روح کا حصہ ہیں اور آپ کی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے، اور ہم ہر پلیٹ فارم سے اس بزدلانہ کارروائی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔ ہم اس پیغام کو پوری دنیا تک پہنچائیں گے کہ کشمیری امن پسند ہیں اور ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔ایسے عناصر جو سیاحوں کو نشانہ بناتے ہیں، دراصل وہ کشمیر کی تصویر کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ سورج کو ہاتھ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا۔ کشمیر آج بھی جنت ہے اور جنت کو کوئی آگ نہیں لگا سکتا۔ ہم سب کشمیری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی ایک آواز ہو کر یہ کہتے ہیں کہ کشمیر امن کا پیامبر ہے، دہشتگردی کا نہیں۔ ہم سب کشمیری آج اپنے مہمانوں کی جدائی میں غمگین ہیں اور اس بات کو گہرائی سے محسوس کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک بہیمانہ قاتلانہ حملہ نہیں تھا، بلکہ ہماری پہچان، ہماری تہذیب اور ہمارے جذبۂ مہمان نوازی پر ایک کاری ضرب اور قیامت خیز المیہ ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم اس ظلم کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمیں چاہئے کہ اس دکھ کو طاقت میں بدلیں، اس غم کو آواز بنائیں اور انسانیت کے علم کو تھامے رکھیں۔ آئیں مل کر عہد کریں کہ ہم ظلم کے خلاف ایک ہوں گے، اور کبھی کسی درندہ صفت کو ہمارے مہمانوں کی عزت پامال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ہماری زمین ہے اور یہاں صرف محبت کے پھول کھلیں گے۔ آج جس کسی نے ہمارے عزیز مہمانوں کا خون بہایا ہے،اُس نے پوری کشمیری قوم کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔ دہشتگردی کا کوئی نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی قومیت ۔ ظلم جہاں کہیں ہو، اس کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت کا فرض ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کہیں اور بے گناہوں کا خون بہےگا۔
رابطہ۔ 9596571542
[email protected]