تلخ حقائق
معراج زرگر
پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گرد حملے، جس میں 26 سیاح جاں بحق ہوئے،سے کشمیر کی سیاحت پر مبنی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، معاشی ترقی کے برسوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی داؤ پر لگ گئی ہے۔سیاحت طویل عرصے سے جموں و کشمیر کی معیشت کا ایک اہم ستون رہی ہے، جو تقریباً 7 سے 8 فیصد ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار (GSDP) میں حصہ ڈالتی ہے۔2024-25میں خطے کی نامی GSDP کا تخمینہ 2.65 لاکھ کروڑ تھا، جس میں سیاحت سے سالانہ 18,500–سے21,200 کروڑ تک کی آمدنی ہو رہی تھی۔ حکومت نے آئندہ چار سے پانچ برسوں میں اس حصہ داری کو 15فیصد تک بڑھانے کا ہدف رکھا تھا، جو اب خطرے میں پڑ گیا ہے۔
حملے کے بعد کشمیر کے سیاحتی عروج کے موسم (اپریل تا اکتوبر) میں فوری اور زبردست کمی دیکھنے کو ملی۔ 2024 میں سیاحوں کی تعداد 2.36 کروڑ کی تاریخی سطح پر پہنچ چکی تھی، لیکن پُرتشدد واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر بکنگز منسوخ ہو گئیں۔ رپورٹس کے مطابق مغربی بنگال — جو کشمیر آنے والے تقریباً 30 فیصد سیاحوں کا ذریعہ ہے، سے 90فیصد بکنگز منسوخ ہو گئی ہیں۔
مالی نقصان بہت زیادہ ہے۔ اوسطاً سیاحوں کے ایک خاندان کا یومیہ خرچ 20,000 روپیہ ہے اور اگست تک تقریباً 13 لاکھ بکنگز کی منسوخی سے خطے کو براہ راست اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر یہ گراوٹ پورے موسم میں جاری رہی، تو مجموعی معاشی نقصان 21,000 کروڑ روپیہ تک پہنچ سکتا ہے، جس سے 1,500 سے زیادہ ہاؤس بوٹس، 3,000 ہوٹل کے کمرے اور ہزاروں معاون کارکنان جیسے ٹیکسی ڈرائیورز، گائیڈز، گھوڑے والے اور کاریگر متاثر ہوں گے۔
سیاحت کا اثر صرف ہوٹلوں اور سیر و تفریح پر نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ، باغبانی، ریٹیل اور ہینڈی کرافٹس کے شعبے بھی اس کے جھٹکے محسوس کر رہے ہیں۔ مقامی مصنوعات جیسے شہد، زعفران اور دستکاریوں کی طلب میں شدید کمی آئی ہے۔ سیاحت سے جڑے کاروباروں میں قرضوں کی عدم ادائیگی کا خدشہ بڑھ گیا ہے، جو مقامی بینکوں اور مالیاتی اداروں پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے۔
کشمیر میں تقریباً 70,000 افراد براہ راست سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور خطے کی تقریباً نصف آبادی بالواسطہ طور پر اس شعبے سے منسلک ہے۔ اچانک اس مندی نے ہزاروں خاندانوں کی زندگی متاثر کر دی ہے۔ ڈل جھیل جیسے مشہور سیاحتی مقام پر، جہاں 750 سے زیادہ ہاؤس بوٹس ہیں، 200,000 سے زائد افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کی بے روزگاری کی شرح جو2019-20 میں 6.7 فیصدتھی اور 2023-24میں 6.1 فیصد تک آ گئی تھی، اب دوبارہ تیزی سے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ بے روزگاری میں 1–2 فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ دسیوں ہزار افراد، بالخصوص کم آمدنی والے کارکنان جیسے گھوڑے والے اور ریڈی بان، جو یومیہ تقریباً 400 سے 500 روپیہ کماتے ہیں، اپنی روزگار کھو سکتے ہیں۔
چھوٹے کاروباری افراد تباہی کے دہانے پر ہیں۔ پہلگام کے ایک ہوٹل مالک محمد محسن، جنہوں نے حال ہی میں اپنے ہوٹل کو وسعت دینے کے لیے 20 لاکھ روپیہ کی سرمایہ کاری کی تھی، اب شدید مالی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح دو بے روزگار دوستوں نے بنک سے 40 لاکھ روپیہ کا قرضہ لیکر چار سال کے لئے ایک ہوٹل پٹے پر لیا تھا، اب گھاٹے کے ساتھ ساتھ ذہنی توازن بھی کھو رہے ہیں۔
معاشرتی اور اقتصادی اثرات شدید ہو سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مالی بے یقینی نوجوانوں کو کسی بھی غلط کام کی طرف مائل کر سکتی ہے، جس سے سیکیورٹی کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ غربت اور سماجی عدم استحکام میں اضافہ بھی خدشات میں شامل ہے، کیونکہ کئی خاندانوں کا انحصار سیاحتی موسم کی آمدنی پر تھا اور اب وہ ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔
فی الحال صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ ڈل جھیل اور پہلگام جیسے سیاحتی مقامات سنسان ہو چکے ہیں اور ہوٹلوں میں 90 فیصد کمروں کی گنجائش خالی ہے۔ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی جانب سے جموں و کشمیر کا سفر نہ کرنے کی ہدایات مزید غیر ملکی سیاحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔
تاہم، امید ابھی باقی ہے۔ ماضی کے واقعات جیسے 2008 کے ممبئی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سیاحت اگرچہ نازک، مگر پھر بھی بحالی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیکیورٹی فوری بہتر بنائی جائے اور عوامی اعتماد بحال کیا جائے، تو سات آٹھ ماہ کے اندر سیاحت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔
حکام نے مرنے والوں کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپیہ اور زخمیوں کو 1 سے 2 لاکھ کے ریلیف پیکجز دینے کا اعلان کیا ہے۔ کاروباری تنظیمیں مزید اقدامات، جیسے قرضوں پر رعایت، بکنگ کینسلیشن فیس کی معافی اور اضافی پروازوں کی دستیابی کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ بحالی کو فروغ دیا جا سکے۔
آنے والے اہم ایونٹس، جیسے امرناتھ یاترا کے دوران، سیکیورٹی کے سخت اقدامات ضروری ہیں۔ ایک مربوط مہم، جس میں حکومتی، کاروباری اور مقامی شراکت داری سے سیکیورٹی کے اقدامات کو اجاگر کیا جائے، سیاحوں کے اعتماد کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر موجودہ سیاحتی بحران سیزن بھر جاری رہا، تو کشمیر کو 18,500–سے21,200 کروڑ روپیہ تک کا نقصان ہو سکتا ہے اور بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ فوری حکومتی اقدامات، مضبوط سکیورٹی اور اعتماد سازی کی منظم کوششیں ناگزیر ہیں تاکہ طویل مدتی معاشی تباہی سے بچا جا سکے۔اگرچہ موجودہ منظرنامہ مایوس کن ہے، لیکن کشمیر کی تاریخی لچک اُمید کی کرن ہے، بشرطیکہ فوری اور مربوط عمل اختیار کیا جائے۔
(نوٹ: اعدادو شمار اور تخمینے مختلف انٹرنیٹ ذرائع سے لئے گئے ہیں)
[email protected] رابطہ۔9906830807