جموں خطہ کے پہاڑی علاقوں میں سڑک حادثات کا سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ گزشتہ روز ریاسی کے مہور علاقے میں ایک ٹیمپو حادثے کاشکار ہوگیا جس کے نتیجہ میں 9افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ دیگر زخمی ہوئے ۔پہاڑی علاقوں کے جغرافیائی خدو خال ایسے ہیں کہ اگر ڈرائیور سے دوران ڈرائیونگ کوئی معمولی سی غلطی بھی ہوئی تو گاڑی کئی فٹ گہری کھائی میں گر سکتی ہے ۔حالیہ کچھ برسوںکے دوران خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں کئی ایسے دردناک حادثات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی جانیں چلی گئیں اور بڑی تعداد میں لوگ اپنے اعضا ء سے محروم ہونے کے بعد زندگی بھر کیلئے محتاج بن کر رہ گئے ۔ان علاقوںکے جغرافیائی خدوخال جس قدر پُر خطر ہیں اسی قدر یہاں کی سڑکیں خستہ حالی کے بھیانک مناظر پیش کر تی ہیں۔ان خطوں میں سڑکوں کا حال یہ ہے کہ ایک پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں برسوں نہیں بلکہ دہائیاں لگ جاتی ہیں ۔اگرچہ حکومت ان علاقوں کی تعمیروترقی کیلئے بڑے بڑے دعوے کررہی ہے لیکن زمینی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ سڑک رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔یہ بانہال کے علاقے چملواس سے نیل جانے والی رابطہ سڑک ہویامنڈی ۔پھاگلہ ۔بفلیاز کا اہم پروجیکٹ ہو یاپھر اسی طرح کی دیگر سڑکوں کی تعمیر ہو ،ہر ایک پروجیکٹ کو تعطل کاشکار بنایاگیاہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات درپیش ہیں ۔جہاں چملواس ۔نیل سڑک چار دہائیوں سے تعمیر نہیں ہوپائی ہے وہیں منڈی ۔ پھاگلہ ۔ بفلیاز سڑک کو پچاس برسوں بعد بھی مکمل نہیں کیاجاسکاہے ۔کئی ایسے پروجیکٹ ہیں جن کی تعمیر کاکام 70 کی دہائی میں شروع کیاگیاتھالیکن بدقسمتی سے ان کی تکمیل کیلئے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ ہدف طے کئے گئے، لیکن تکمیل کی منزل کبھی حاصل نہیں کی گئی۔اسی چیز کا ذکر کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے بھی اپنی رپورٹ میں کیاہے ۔اگرچہ اس حوالے سے سبھی محکمہ جات کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایاگیاہے لیکن سب سے زیادہ خراب کارکردگی محکمہ تعمیرات عامہ کی بتائی گئی ہے ۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ سب سے زیادہ نامکمل پروجیکٹ محکمہ تعمیرات عامہ جموںکے ہیں جن کی تعداد 792ہے ،جس کے بعد پی ایچ ای اور بجلی کے محکموں کا نمبر آتاہے ۔مجموعی طور پر 900سے زائد ایسے ترقیاتی پروجیکٹ ہیں جن کی ریاستی سرکار طے شدہ ہدف کے مطابق تعمیر نہیں کرسکی ہے ۔اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ریاست خاص کر جموں صوبہ میں ترقیاتی پروجیکٹوں کی تکمیل کا تناسب کیاہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کام کی رفتار اس قدر تعطل کاشکار رہے گی تو پھر ریاست کی ترقی کا خواب پوراکیسے ہوسکے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہاڑی خطوں میں ترقیاتی پروجیکٹوں خاص کر سڑکوں کی تعمیر کاکام آسان نہیںہوتا اور اس کیلئے پہاڑوں تک کو چیرناپڑتاہے لیکن حکومت کی طرف سے اسی حساب سے رقومات بھی فراہم کی جاتی ہیں تاہم سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگرحکام کی طرف سے کسی پروجیکٹ پر معمولی سے جھگڑے یا تنازعہ کی وجہ سے کام بند کر دیا جاتا ہیتوپھر اس کی طرف مڑ کر واپس نہیں دیکھاجاتاہے ۔اسی طرح سے جس سڑک پر ایک بار میکڈم بچھایا جاتا ہے تو تب تک اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی جاتی ہے جب تک وہ اُکھڑ اُکھڑ کر خستہ حال نہ ہو جائے اور لوگ سڑکوں پر آکر بڑے پیمانے پر احتجاج نہ کریں ۔ترقیاتی پروجیکٹوں بالخصوص سڑکوں کی تعمیر و دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے ہی پہاڑی علاقوں میں آئے روز سڑک حادثات میں قیمتی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سڑکوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دے اور بہانے تلاشنے کے بجائے ہر ایک پروجیکٹ کو متعینہ ہدف کے اندر مکمل کیاجائے ۔