ائور لوڈنگ اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے باعث ریاست بھر اور بالخصوص پہاڑی علاقوں میں آئے روز سڑک حادثات رونماہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی روک تھام کیلئے صرف زبانی باتیں کی جارہی ہیں اور عملی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ کوئی اقدام نہیں کیاجاتا۔ بارہا یہ تجویز اور عوامی مطالبہ سامنے آیا کہ خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں سڑک حادثات پر قابو پانے کیلئےگاڑیوں کی اوولوڈنگ پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر یہاں سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں کی تعداد میں کیا جائے تو اس سے ایک تو ائورلوڈنگ کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گااور دوسرے ٹریفک قوانین کی پاسداری بھی ممکن ہوسکے گی تاہم حکام کی طرف سے اس حوالے سے اب تک صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیاگیا اور بار بار کے اعلانات کے باوجود یہ بسیں شروع نہیںکی جاسکیں ۔صورتحال یہ ہے کہ خطہ چناب جو سڑک حادثات کیلئے سب سے زیادہ خطرناک علاقہ ہے ، میں درکار 100ایس آر ٹی سی بسوں میں سے صرف 14بسیں چل رہی ہیں ۔ان بسوں میں 2رام بن ضلع اور 6ڈوڈہ جبکہ 6ہی کشتواڑ میں چلتی ہیں ۔حالیہ عرصہ میں رونما ہونے والے دلدوز سڑک حادثات پر اگر نظردوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ائورلوڈنگ رہی ہے اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پہاڑی علاقوں کے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ائورلوڈ گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیںہوتا اور یہ ان کی زندگیوں کے ساتھ ایک طرح سے کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ ساتھ ہی ٹرانسپورٹروں کی طرف سے بھی لالچی رویہ اختیار کیاجاتاہے اور تب تک گاڑی، چاہے وہ بس ہو یا ٹاٹاسومو یا پھر ٹیمپو، سٹینڈ سے باہر نکالی ہی نہیں جاتی جب تک کہ وہ کھچا کھچ سواریوں سے بھر نہ جائے اور اس کے بعد راستے میں بھی سواریاں بٹھانے کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کا عالم یہ ہے کہ چھوٹی بڑی تمام مسافرگاڑیوں میں نہ صرف اندر بلکہ چھتوں پر اور سیڑھیوں سے بھی مسافر لٹک رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں ڈرائیور کی ذرا سی غلطی بھی بڑے حادثے کا مؤجب بنتی ہے اور یہی عموماًدیکھابھی گیاہے ۔ہر ایک حادثے کے بعد سیاسی لیڈران اور حکام کی طرف سے تعزیتی پیغامات جاری کئے جاتے ہیں اور ایک آدھ میٹنگ کرکے یہ اعلامیہ جاری کیاجاتاہے کہ ایس آر ٹی سی بسوں میں اضافہ کیاجائے گا اور ریاستی حکومت حادثات کی روک تھام کیلئے جامع پالیسی مرتب کررہی ہے لیکن بدقسمتی کا امر یہ ہے کہ سیاسی لیڈران کے وعدوں کی طرح متعلقہ حکام بھی اپنے اعلامیہ کو بھول جاتے ہیں اور ’منٹس آف دی میٹنگ ‘کاغذوں تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ۔سرکاری ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جو صورتحال خطہ چناب کی ہے وہی کچھ حال خطہ پیر پنچال کا بھی ہے ۔ان دونوں خطوں کی عوام کئی برسوں سے یہ مطالبہ کرتے آر ہے ہیں کہ ان علاقوں کےلئے ایس آر ٹی سی بسیں فراہم کی جائیں مگر کسی بھی حکومت یا انتظامیہ نے اس پر سنجیدگی سے اقداما ت نہیں کئے اور نتیجہ کے طور پر سڑک حادثات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح جموں وکشمیر میں بھی سرکاری ٹرانسپورٹ نظام کو فعال بنایاجائے اور اگر باقی جگہوں پر یہ سروس کامیاب ثابت ہوسکتی ہے توپھر یہاں ایسا کیوں ممکن نہیں ہوسکتا۔؟