ریاست کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کے دعوے عوام کے ساتھ ایک بھدامذاق بن کر رہ گئے ہیں ۔ان دعوئوں کی قلعی بانہال کے علاقہ مہو میں پیش آئے واقعہ سے کھل جاتی ہے جہاں دوروز قبل ایک حاملہ خاتون نے علاج کی سہولت نہ مل پانے پر سسک سسک کر دم توڑ دیا ۔مہو علاقہ برف سے ڈھکاہواہے جس کی وجہ سے علاقے کو جانے والی سڑک بھی بند ہے اور مریضوں کو علاج کیلئے کسی بھی طرح کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ اگرچہ اس علاقے کی سات ہزار سے زائد آبادی کیلئے 1960میں ایک یونانی طبی مرکز قائم کیاگیاتھاتاہم وہ بھی پچھلے 4سال سے بندپڑاہے اور طبی خدمات کے معاملے میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ۔خاتون کی موت کے بعد مہو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کرکے پارلیمانی انتخابات کابائیکاٹ کرنے کا انتباہ دیاہے ۔یہ واقعہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے دور دراز اور بالائی علاقوں کی حالت زار بیان کرتاہے جہاں زندگی کے اس جدید دور میں بھی کسی طرح کی کوئی سہولت میسر نہیں ۔ طبی نگہداشت کے نظام کے حوالے سے ان دونوں خطوں کی تصویر انتہائی مایوس کن ہے۔جہاں دیہی علاقوں میں ڈاکٹرہوتے ہیں اور نہ ہی ادویات تو وہیں تحصیل و اضلاع کی سطح پر قائم ضلع و سب ضلع ہسپتالوں میں بھی طبی عملے کی قلت اور مشینری کا ناکارہ بنارہنا علاج و معالجے میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہواہے ۔صورتحال کا ادراک اس بات سے ہوتاہے کہ ان خطوں سے روزانہ بڑی تعداد میں مریضوں اور زخمیوں کو جموں کے بڑے ہسپتالوں میں منتقل کیاجاتاہے جنہیں علاج کیلئے تکلیف دہ سفر اور ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور پھر وہاں مریضوں کی بہتات کی وجہ سے انہیں تاریخوں پہ تاریخیں دی جاتی ہیں۔ محکمہ صحت کی طرف سے ’ابتدائی طبی علاج ‘کا محاورہ خوب استعمال کیاجاتاہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ بیشتر علاقوں میں یہ ابتدائی طبی سہولت بھی میسر نہیں۔مہو واقعہ جیسے کئی واقعات وقفو ں وقفوںکے بعد رونماہوتے رہتے ہیں اور کبھی کسی حاملہ خاتون کی مقامی سطح پر بروقت علاج یا جموں منتقلی کے دوران موت ہوجاتی ہے تو کبھی کوئی زخمی فوری علاج نہ ملنے پر دم توڑ دیتاہے ۔مقامی لوگوں کی طرف سے بارہا یہ اپیل کی جاچکی ہے کہ پیر پنچال اور چناب خطوں میں طبی نظام کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور طبی عملہ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ادویات اور مشینری کو بھی قابل کار بنایاجائے، تاہم کبھی حکام نے اس مانگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا،باوجود اس کے کہ جب بھی کوئی سرکاری کارندہ ان علاقوں کے دورے پر جاتاہے تو سب سے زیادہ اُجاگر ہونے والا مسئلہ طبی نظام سے ہی جڑاہوتاہے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک حکام کی طرف سے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں طبی نظام کے تئیں آنکھیں موندھ کر رکھی جائیں گی اور کس زمانے میں دو ردراز علاقوں کے عوام کو بھی حقیقی معنوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم ہوں گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دور دراز علاقوں کے طبی نظام کو فعال بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور ان علاقوں میں ڈیوٹی سے غفلت برتنے والے ڈاکٹروں سے سختی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ کم از کم بنیادی طبی علاج کیلئے ادویات اور دیگر ضروریات دستیاب رکھی جائیں ۔