ریاست میں پہلے تو آبی ذخائر دن بدن سکڑجانے کے باعث پانی کی قلت شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے لیکن جو پانی سپلائی کیاجارہاہے وہ بھی مضر صحت ثابت ہورہاہے اور صاف پانی کی سپلائی اس جدید دور میں بھی ایک خواب بناہواہے ۔اگرچہ جموں،سرینگر اور کچھ دیگر شہروں میں محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے صاف پانی کی سپلائی کیلئے فلٹریشن پلانٹ نصب کئے گئے ہیں تاہم دیگر قصبوں اور دیہات میں پانی کی فلٹریشن کا کوئی تصور ہی نہیں ہے جس کے نتیجہ میں آلودہ پانی پی کرلوگ وبائی امراض کاشکار بنتے جارہے ہیں ۔ ہر کچھ عرصہ بعد کسی نہ کسی علاقے سے وبائی امراض پھوٹ پڑنے کی شکایات سامنے آتی ہیں اور تحقیق کرنے پر یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ بیماریاں ناقص اور آلودہ پانی پینے کی بدولت پھوٹ پڑتی ہیں۔ ان دنوں خطہ پیر پنچال کے سرحدی قصبہ پونچھ میں بھی ایسی ہی صورتحال کاسامناہے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ یرقان جیسی خطرناک بیماری اور معدے کی بیماریوں کاشکار ہوتے جارہے ہیں ۔ پونچھ میں پچھلے دو ہفتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور پہلے تو یہ پتہ ہی نہیں چل پایاکہ بیماری کا اصل سبب کیاہے تاہم جب اس پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہواکہ یہ سب آلودہ پانی پینے کانتیجہ ہے ۔قصبہ میں مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہواہے اور علاج کیلئے بڑی تعداد میں لوگ ضلع ہسپتال کارخ کررہے ہیں جس کی تصدیق محکمہ صحت نے بھی کرتے ہوئے بتایاہے کہ بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی کی سپلائی ہے ۔ محکمہ صحت کی طرف سے اس حوالے سے پونچھ میں پانی کے ٹینکوں اور سپلائی لائنوں کا معائنہ کیاگیا جس دوران یہ پایاگیاکہ یہ ٹینک ڈھکن کے بغیر کھلے ہوئے ہیں جن کی نہ اندر سے صفائی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے آس پاس صفائی کا کوئی انتظام ہے ۔صرف محکمہ صحت ہی نے نہیں بلکہ جموں سے پونچھ گئی ماہرین کی ایک ٹیم نے بھی وبائی امراض کیلئے آلودہ پانی کی سپلائی کو ہی اصل وجہ قرار دیاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پونچھ ضلع کی کل آبادی چار لاکھ سے زائد ہے مگر اس ضلع میں آج تک ایک بھی واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب نہیں کیاگیا جس سے صاف پانی فراہم کرنے کے حکومتی دعوئوں کی حقیقت کا پتہ چلتاہے ۔اسی طرح سے دیگر دور دراز اور پہاڑی اضلاع میں بھی صاف پانی کی سپلائی عوام کیلئے ایک خواب بناہواہے ۔محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے قدرتی ذخائر سے نکلنے والے پانی کو ٹینکوں میں جمع کرکے پائپ لائنوں کے ذریعہ سپلائی کیاجاتاہے یاپھر واٹر لفٹ سکیموں کا استعمال کیاجاتاہے لیکن نہ ہی فلٹریشن پلانٹ کا کوئی تصور ہے اور نہ ہی پانی کی جانچ کیلئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب کے بارے میں کسی نے سوچا ہے۔ اس پر طرہ امتیاز یہ کہ جن پائپوں کے ذریعہ پانی کی سپلائی کی جاتی ہے وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکا رہوتی ہیں اور سپلائی میں کیڑے مکوڑے اور دیگر گندگی بھی پانی کے ساتھ مل جاتی ہے ۔یہ بات بھی اہم ہے کہ دنیا بھر کی طرح ریاست میں بھی ماحولیاتی توازن بگڑتاجارہاہے جس نے ہمارے آبی ذخائر کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے اور کل تک صاف و شفاف سمجھے جانے والے پانی کے چشمے و آبشار آج یاتو خشک ہوچکے ہیں یاپھر وہ گندگی سے آلودہ بن گئے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کی سپلائی کیلئے روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید طرز اپنایاجائے اور لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کیلئے ہر ضلع میں فلٹریشن پلانٹ و واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کئے جائیں ۔