آج وہ دنوں بھائی بہن اُس جگہ کو بار بار دیکھ رہے تھے جہاں پر اُن کا ابا اس وقت کتاب سامنے رکھ کر مٹی کے پیالے میں چائے پیتا تھا۔حمیراگھر کی سب سے بڑی بیٹی اپنے اباکے پیالے کو بار بار دیکھ رہی تھی اور اب تو اُس کی آنکھیں بھی بھر آئی۔
’’حمیرا بیٹی چلو دونوں بھائی بہن اسکول کے لئے تیار ہوجاو دیر ہورہی ہے‘‘۔ حمیرا نے مان کی آواز سنتے ہی جلدی جلدی آنسوں پونچھ ڈالے اور اسکول جانے کے لئے تیار ہوئی۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ ابا کی لائبیریری والے کمرے میں گئی۔ آج بھی وہاں خدا حافظ کہنے کے لئے کوئی نا تھا۔ جواہرہ نے دروازے کے سامنے کھڑی حمیرا کو اپنے سینے سے لگا کر کہا ـ’’ چل میری جان اسکول کے لئے دیر ہورہی ہے رب نے چاہا تو ابا جلدی آجائینگے‘‘۔
حمیرا اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرنے والی ہی تھی کہ اخبار فروش کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی ’’آج کی تازہ خبر ، آ ج کی تازہ خبر!عدالت نے ملک کے مشہور و معروف عالم ِ دین کو پھانسی کا حکم سُنایا‘‘۔حمیرا نے جب اخبار پر تصویر دیکھی تو اُس کی آنکھیں بھر آئی اور بھائی کا ہاتھ پکڑ کر گھر کی طرف دوڑی ۔
امی امی!! ابا !وہ زور زور سے رونے لگی۔جواہرہ نے دنوں بچوں کو سینے سے لگا کر کہا ’’میرے جگر خدا سب کچھ ٹھیک کرے گا۔تمہارے ابا نے کوئی چوری نہیں کی ہے ،کسی کا خون نہیں کیا ہے ۔تمہارے ابا کا قصور صرف یہ ہے کہ اُس نے ایک کتاب لکھی ہے،فحش کتاب نہیں بلکہ تمہارے ابا نے تو ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور قلم بھی خدا کے لئے اُٹھایا۔‘‘ جواہرہ نے اپنے چہرے پہ رِس رہے آنسوں کو صاف کر کہ کہا ۔’’یاد ہے نا بیٹا! ابا نے کیا کہا تھا، جب وہ وردی پوش اُن کو لئے کر گئے تھے۔‘‘حمیرا نے سسکتے ہوئے کہا کہ ابا نے کہا تھا ’’ میں اُس ذاتِ لافانی کے لئے اس آگ سے کھیل رہا ہوں ،اسلئے صبر کرنا۔ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے‘‘۔
جواہرہ نے گود میں اُٹھاکر حمیرا کے سر کے بالوں میں انگلیاں ڈال کر کہا ’’پتہ ہے تمہارے ابا نے جیل سے کیا پیغام بھیجاہے۔‘‘
’’ کیا پیغام بھیجا ہے اُمی؟‘‘حمیرا نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ تمہارے ابا نے اُس شخصیت کے الفاظ لکھ کر بھیجے جس کو میں اور آپ کے ابا اپنا مرشد مانتے ہیں، تمہارے ابا اور میں نے اسلئے شادی کی کیونکہ ہم دنوں نے اس شخصیت کو خوب پڑھا تھا اور سمجھا بھی تھا،اسلئے ہمارے خیالات کافی ملتے تھے۔اچھا خیر تم ذرا دل کو تھام لو وہ الفاظ میں نے دروازے پر چپکا دئے ہے ۔کل صبح دن کی روشنی میں خود پڑھنا ۔چلو اب دیر ہورہی ہے خدا حافظ۔اور رونا نہیں پتہ ہے نا اگر تمہارا چھوٹا بھائی جاگ گیاتو پھر آسمان سر پہ اُٹھائے گا۔‘‘
وہ دنوں ماں بیٹی قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔حمیرا نے قرآن کانسخہ الماری میں رکھا اور دروازہ کھولنے گئی۔وہ دروازہ کھولنے والی ہی تھی کہ اُس کی نظر اِن حروف پر پڑیـ’’ ـاگر میرا وقت آگیا ہے تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا ،اور اگر میرا وقت نہیں آیا تو یہ لوگ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا کوئی نقصان نہیں کر سکتے‘‘۔
یہ الفاظ پڑھ کر دل گیر حمیرا نے دروازہ کھولا اور اُس کی زبان سے نکلا اَبااَبا!!!!!!!!
کشمیر یونیورسٹی سرینگر ،[email protected]