کسی بھی ملک یاریاست کی خوش حالی میں عوام ہی حکومت کے اصل موسس ہوتے ہیں اورحکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق و فرائض ادا کرنے کو اولین ترجیح دے۔ ہمارے ملکی اور ریاستی آئین دونوں ہی اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ حکومت عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی فلاح و بہبود اور ان کی خوشحالی کی اصل ذمہ دار ہے لیکن گزشتہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ریاست جموں کشمیر کے تقریباً ہر ضلع کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں عوام زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں اور عوام کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہماری ریاست کے تقریباً ہر ضلع کے دور دراز اور پہاڑی علاقے جہاں پہ تقریباً 60 سے ستر فیصد آبادی گجر بکروال اور پہاڑی طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی تعلیم جس کو ہر مسئلے اور مشکل کے حل کی سرٹیفیکٹ کا درجہ حاصل ہے ، یہ آبادی اس نور سے محروم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات کا فقدان اور سڑکوں کا نہ ہونا عوام کے مسائل کی فہرست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں ہر دو یا تین کلو میٹر کے بعد اسکول قائم کئے گئے ہیں پھر تعلیم وتدریس کا اُجالامفقود کیوں؟ دراصل اسکول تو قائم ہو گئے لیکن ان دور دراز اور پچھڑے علاقوں میں سڑکوں کی عدم موجودگی سے عوام کو 3 سے چار گھنٹے تک پیدل چلنا پڑے تو ایسے دورافتادہ علاقوں میں کوئی سرکاری اُستاد جانے کو ترجیح کیوں دینے لگے ؟ ان علاقوں سے کوئی بھی پڑھ لکھ کے اس قابل نہیں بن پاتا کہ ان اسکولوں میں لائق و قابل اُستاد بن سکے اور پچھڑے علاقوں کے بچوں بچیوںکے مستقبل کو محفوظ کر سکے ۔ حالانکہ محکمہ تعلیم نے ہارڈ زون پالیسی شروع کی اور ہر استاد کو ایسے علاقوں میں دو دو سال کے لئے فرائض انجام دینا لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن جن کے مقدر میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ان کے لئے کوئی بھی اچھی سرکاری پالیسی کار گر ثابت نہیں ہوتی ۔لہٰذا ان پسماندہ اور دوردراز علاقوں میں تعینات اساتذہ کرام مہینے میں ایک دو بار اسکول کا چکر لگا کرحاضری مارتے ہیں اور بقیہ دن گھر پہ آرام فرماتے ہیں۔ کچھ اُستاد نما رنگے سیار حکومت کی ملی بھگت سے اپنی پوسٹنگ واپس ایسے علاقوں میں کروا لیتے ہیں جہاں پر ان کو وسائل اور سہولیات میسر ہوتے ہیں اور بعض تو اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کو چھوڑ کر دوسرے محکموں جہاں پہ محنت کم کرنی پڑتی ہے ،اٹیچمنٹ کروا لیتے ہیں اور جب امتحانات نزدیک آتے ہیں تو واپس اپنی اپنی پوسٹنگ پہ آ جاتے ہیں کیونکہ انکریمنٹ کا مسئلہ ہوتا ہے، اور انکریمنٹ تبھی ملے گی جب رزلٹ اچھا دیں گے اور پھر شروع ہوتا ہے جھوٹ اور فریب کا نہ رُکنے والا سلسلہ کیونکہ ان طلباء وطالبات کو جنہوں نے پورا سال نہ ہی اسکول کا اور نہ ہی اساتذہ کا چہرہ تک دیکھا ہوتا ہے، ان کو اگلی جماعت میں پاس کر کے داخلہ دے دیا جاتا ہے، اور یہی عمل ہر سال دہرایا جاتا ہے۔ رہبرِتعلیم اسکیم شر وع کر کے اگر کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار ہی دینا ہے تو رہبرِ تعلیم ٹھیک ہے مگر بارہویں پاس نوجوانوں کو جب استاد بنا دیا جائے تو نظامِ تعلیم کا ستیا نا س ہونا طے ہے ۔اس اسکیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام الناس نے سرکاری اسکولوں سے اپنے بچوں بچیوں کو نکال کر پرایئویٹ اسکولوں میں داخل کروانا شروع کیا اور جنہیں محکمہ تعلیم میں اس اسکیم کی بدولت روزگار مل گیا لیکن ایسے اساتذہ اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنہوں نے ساتھ ہی ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم اور مطالعے کو جاری رکھا اور نہ سرف اپنا بلکہ محکمے کا بھلا کیا۔ ایسے اسکولوں میں جہاں اس اسکیم کے تحت اساتذہ تعینات ہیں، بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے بچیوںکو تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی دی جا رہی ہو،بچے بچی کو معاشرتی آداب،اخلاقیات اور سماجی طور طریقوں سے آشنا کیا جاتا ہو، انہیں مذہبی کتابوں اور اقدار سے جوڑنے کی تلقین کی جاتی ہو بلکہ بچے کو صرف نصاب تک ہی محدود رکھا جاتا ہے اور پھر جب بچہ معاشرے میں کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے یا غیر اخلاقی رویہ اپناتا ہے تو ایک دم اُستاد کی نااہلیت یاد آتی ہے۔یہی طلباء و طالبات جب ایسے اساتذہ اورسماج کی طرف سے منفی رویے کے شکار ہوتے ہیں تووہ ہمیشہ کے لئے تعلیم کے نور اور تربیت جیسی نعمت سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں اور سماج کے کھاتے میں کئی جرائم کے ساتھ ساتھ بچہ مزدوری ( Child Labour) کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے ۔
یہ تو رہا آدم ساز محکمہ تعلیم کا حال، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کا حال بھی دور افتادہ علاقوں کے حوالے سے یہی ہے۔ ان علاقوں میں طبی سہولیات کا زبردست فقدان ہے۔ آفاقی اصول یہ ہے کہ تعلیم انسان کو زندگی جینے کا سلیقہ اور شعور دیتی ہے اور صحت مند انسان ہی کامیاب زندگی جی سکتا ہے ۔ان علاقوں میں طبی عملے کی غیر حاضری یا غیر ذمہ دارانہ روش کی وجہ سے عوام کو مجبوراً ڈسٹرکٹ اور سب ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں مقابلتاًبہتر طبی سہولیات میسر ہوں۔ تجر بہ یہ ہے کہ اگر درد زہ میں مبتلا حاملہ کو شفاخانے منتقل کر نے کی ضرورت پیش آئے تو مریضہ کو پہلے چارپائی پہ اُٹھا کے دوسے تین گھنٹے تک پیدل چل کے گاڑی پکڑی جاتی ہے اور پھر کئی گھنٹے سفر طے کر کے متعلقہ ہسپتال تک پہنچا جاتا ہے ۔ا س دوران بسااوقات حاملہ یا بچہ یا دونوں راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیںاور جو ہسپتالوں تک پہنچ بھی جائیں تو اُن کے ساتھ ڈاکٹروں اور بقیہ عملے کا رویہ کافی مایوس کن ہوتا ہے ۔ شکایت یہ بھی ہے کہ ان غریبوں سے متعلقہ اسٹاف، آوپریشن تھیٹر والے ، خاکروب ، نرسیں ، گیٹ کیپر وغیرہ تیمارداروں سے اپنا ہفتہ وصول کر کے ہی پیچھا چھوڑتے ہیں ۔حالانکہ زَچہ بچہ دونوں کے لئے حکومت سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ اگر دور دراز علاقوں سے آئے لوگوں کے پاس پیسے نہ ہوں تو ان کو سرکاری ہسپتال میں کیا دُرگت ہوتی ہے، وہ ا یک ناقابل ِ بیان داستان ہے ۔ ان حالات میں یہ غریب مگر سادہ لوح لوگ بھیک مانگنے یا قرضہ اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ ہسپتال والوں کوجبری خیرات ادا کریں۔ اسی طرح کوئی مزدور پیشہ مزدوری کرتے ہوئے اگر کسی پیڑ سے یا کسی پہاڑ سے گر کر زخمی ہو جائے تو اس کے لئے گاؤں دیہات کے شفاخانوں میں فرسٹ ایڈ ( First Aid) تک کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی ہے۔
ان دور دراز علاقوں میں مزدوری تک کے مواقع میسر نہیں ہوتے ہیں،اس وجہ سے یہاں بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے ہر جگہ ملتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی فلاحی ریاست میں شہریوں سے حاصل شدہ ٹیکس رقومات وہاں رہ رہے عوام کے فلاح وبہبود پر بلا امتیازخرچ ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا،ا س لئے بے روزگاری ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ جاتی ہے ۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری روزگار کے نت نئے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ا س ضمن میں فیکٹریوں ،کارخانوں اور صنعتوں کے قیام وفروغ سے بے روزگاری کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے ۔ یوں پڑھے لکھوں کے بشمول نا خواندہ ، پچھڑے علاقوں اور پسماندہ جاتیوں کو اپنا کام دھندا کر کے پیٹ کا جہنم ٹھنڈا کر نے اور اپنی صلاحیتیں منوانے اور معاشرے میں اپنا مقام حاصل کر نے کا موقع ملتا ہے۔ ان حوالوں سے عوام کے ہر طبقے کو مناسب سہولیات بہم پہنچانا سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ایسا کر نا عوام پر کوئی احسان نہیں ہوتا لیکن افسوس صد افسوس کہ ووٹ بٹورنے والے سیاسی ٹھیکیدار عوام کو گداگر سمجھ کر کسی بھی علاقے میں ترقیاتی کا موں کو لوگوں پر ذاتی احسان جتلاکراُجاگر کرتے ہیںاور سادہ لوح لوگ ہیں کہ پانچ چھ سال ان ہیناکردہ’’ احسانوں‘‘ تلے دبے رہتے ہیں۔عوام کو ا س بابت بھی اپنے اختیارات اور استحصال کے درمیان فرق سمجھنے اور سیاسی ٹھیکیداروں کو جواب دینے کے لئے سیاسی بالغ نظری کے ساتھ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے حقوق وفرائض سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ سرکار کے فرائض کی علمیت سے بھی بہرہ و ر ہونا لازمی ہے تاکہ معاشرے کی ہمہ گیر اور یکساں ترقی ممکن ہو ۔ ا س سلسلے میں لوگوں کو حق اطلاعات کے قانون کے تحت ہر چھوٹے بڑے سرکاری اہل کار کو جوابدہ بنانے کا کلچر پیدا کر نا چاہیے۔ الغرض جب تک سماج کا ہر فرد اپنے رول کے حوالے سے بیدار نہیں ہوتا اورباشعور طبقہ خاموش رہتا ہے تب تک نہ ہماری ترقی ممکن ہے اور نہ ہی دورافتادہ عوام اور پچھڑے ہو ئے طبقات کاسر اٹھاکے جینا ہی ممکن ہے ۔ لہٰذا ہمیں جمہوری انداز اپنا کر تعلیم ، صحت ، روزگار ، بلد یاتی سہولیات جیسی بنیادی چیزوں کی مانگ لئے فرداً فرداً آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے، فرض بھی ہے ، آرام دہ حال کی ضمانت بھی ہے اور اچھے مستقبل کی نوید بھی ہے اور یاد رکھیں اپنا فریضہ خلوص کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اپنے حق کے لئے اواز اٹھانا کوئی جرم نہیں۔
رابطہ 9622080799