ریاستی قانون ساز یہ نے جموں وکشمیر ریزرویشن ایکٹ 2004 میں ترمیم کے حوالے سے دو بِل پاس کئے جس کی رو سے گورنر کی تصدیق کے بعد ایک ایکٹ وجود میں لانے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے ۔ان بلوں کی بدولت سماج کے پچھڑے طبقے اور پہاڑی زبان بولنے والوں کو ریزرویشن حاصل ہوگی ۔
پہلا بِل انقلابی نوعیت کا ہے کیونکہ اس سے کسی بھی کنبے کو ان کی اقتصادی حالت کی بنیاد پر ریزرویشن فراہم ہوگی ۔ جموں وکشمیر ملک کی پہلی ریاست ہے جہاں سماج کے غریب سے غریب تر اور پسماندہ طبقے کے لوگوں کو ان کی اقتصادی حالت پر ریزرویشن مہیا ہوگی ۔اب تک ملک بھر میں ریزرویشن سماج کے مختلف طبقوں کو اُن کی ذات، جنس یا کسی بھی طرح کی معذوری ہونے کے بنیاد پر دی جاتی تھی ۔
دراصل ملک میں اقتصادی سطح پر مشکلات جھیلنے والے سماج کے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ پچھلی کئی دہائیوں سے تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ایک انفرادی کنبے کی اقتصادی حالت کی بنا پر ریزرویشن کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں جو ا بھی تک ریزرویشن کے زمرے سے باہر تھے۔
ریزرویشن ایکٹ میں ترمیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریزرویشن کے فوائد سماج کے اُن پچھڑے طبقے کے لوگوں تک بھی پہنچ پائیں جو ایس سی ، ایس ٹی ، سوشل کاسٹ ،اے ایل سی اور آر بی اے زمرے کے تحت نہیں آتے ہیں۔
حکومت نے ان گروپوں کے حقو ق کی پاسداری سپر یم کورٹ کی طرف سے مقرر کی گئی کیپنگ کے حدود میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں ریزرویشن کے فوائد جنرل کیٹگری کے اُمید واروں کی قیمت پر دستیاب نہ ہو۔بل کی رو سے سماج کے پچھڑے طبقے سے وابستہ لوگوں کو تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں بہتر مواقع دستیاب ہوں گے۔
اس وقت ریاست کی 36فیصد آبادی یعنی 45لاکھ لوگ کسی بھی ریزرویشن کے دائرے میں نہیں آتے ہیں اور حکومت کو توقع ہے کہ اس طبقے میں سے 10فیصد آبادی کو 5فیصد ریزرویشن کی رو سے فائدہ حاصل ہوگا۔
اگر چہ یہ ریزرویشن ریاست بھر میں غریب سے غریب تر لوگوں کے لئے ہیں تاہم شہروں اور قصبوں میں رہائش پذیر پچھڑے طبقے کے لوگوں کو اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ شہروں اور قصبوں میں بہتر تعلیمی ادارے دستیاب ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ تعلیم کے ثمر اور نوکریوں کے مواقعوں سے کافی دور ہیں ۔وزیر تعلیم نے اس عمل کو چراغ تلے اندھیرا کے محورے سے تعبیر کیا ہے ۔اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے بل کو پاس کرنے کا خیر مقدم کیا ہے ۔دیگر لوگو ں کے علاوہ شہری علاقوں میں رہنے والے غریب لوگ ریزرویشن کے سب سے زیادہ مستحق ہوں گے ۔ریاست کے شہروں میں رہائش پذیر لوگ پچھلے تین دہائیوں کی غیر یقینیت سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
دوسرے اہم بِل کا تعلق پہاڑی زبان بولنے والے لوگوں کو ریزرویشن دینے سے متعلق ہے ۔پہاڑ ی زبان بولنے والے لوگوں کو ریزرویشن کے دائرے میں لانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سماجی اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ آرائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جنہیں سماجی اور اقتصادی شعبوں میں بہتر مواقع دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کے شعبوں تک مؤثر رسائی حاصل ہے ۔
قابل امر بات یہ ہے کہ اس طبقے کے لوگ بھی گجر اور بکروا ل طبقے کے لوگوں کے برابر زندگی گزار رہے ہیں جو پہلے ہی ایس ٹی زمرے کے دائرے میں رکھے گئے ہیں۔
یہ بِل پہلے ہی ریاستی قانون سازیہ نے 2014ء میں پاس کیا تھا لیکن اسے گورنر نے کئی مشاہدات کی بنا پر واپس بھیجا تھا ۔گورنر نے کئی اہم نکات اُبھار کر ایک کلیدی رول نبھاتے ہوئے کابینہ کی اس ضمن میں صحیح سمت میں رہنمائی کی اور اس کی بدولت حکومت نے بنیادی سطح پر تمام لازمی کام کر کے ایک بہتر بِل وجود میں لایا ۔گورنر نے جن سوالات کا جواب طلب کیا تھا ان میں پہاڑی زبان بولنے والے علاقوں کی نشاندہی، ا س طرح کے علاقوں کی نشاندہی کرنے کے لئے اختیار کئے جانے والا اہلیت کا عمل ، کس بنیاد پر ایک شخص کو پہاڑی زبان بولنے والا یا اسے پسماندہ قرار دئیے جانا اور کئی دیگر معاملات شامل ہیں۔
گورنر کے مشاہدات کے تناظر میں نئی حکومت نے یہ معاملہ جائزے اور رِپورٹ پیش کرنے کے لئے جے اینڈ کے سٹیٹ کمیشن فار بیک وارڈ کلاسز کو بھیج دیا تاکہ یہ بِل اسمبلی میں پیش کیا جاسکے۔
رِپور ٹ میں کئی اہم اور دلچسپ حقائق سامنے لائے گئے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں 2011 ء کی مردم شمار ی کے مطابق پہاڑ ی زبان بولنے کی آبادی 9.60 لاکھ ہے ۔اس میں یہ بھی کہا گیا کہ پہاڑی زبان بولنے والوں کی 74فیصد آباد ی پونچھ اور راجوری اضلاع میں آباد ہے جبکہ 16فیصد آبادی اوڑی ، بونیار ، کیرن اور کرناہ تحصیلوں میں گزر بسر کر رہے ہیںاور اس رِپورٹ سے ظاہر ہوا کہ پہاڑی زبان بولنے والوں کی تمام آبادی کا لگ بھگ 90فیصد حصہ ریاست کے وضع کئے گئے اور مخصوص علاقوں میں آباد ہے۔لہٰذا ان علاقوں میں وہ لوگ پہاڑی تصور کئے گئے جو نہ تو گجر بکروال اور نہ ہی کشمیر ی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور پہاڑی طبقے میں آنے والے لوگ دونوںہندو اور مسلمان برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
کمیشن نے صحیح طور پر یہ نکتہ بھی سامنے لایا کہ بٹوارے کے بعد اس طبقے کے لوگ پنجاب کے میدانی علاقوں سے کٹ کر رہ گئے اوروہ اقتصادی طور بھی پیچھے رہے اورسرحدی علاقوںمیں مسلسل تنائو کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا کیونکہ اس طبقے کی آبادی کا 90فیصد ان ہی علاقوں میں بود و باش کر رہا ہے ۔کمیشن نے مزید کہا کہ اس طبقے کی شرح خواندگی 51.5120فیصد ہے جبکہ راجوری اور پونچھ اضلاع میں اس طبقے کی آبادی کا لگ بھگ 30فیصد غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کر رہا ہے۔
کمیشن نے پہاڑی زبان بولنے والوں کی نشاندہی کے مقصد کے لئے ان کی زبان ، ان کے ثقافتی اقدار ، رہن سہن ، کھانے پینے کی عادات اور طبقے میں سماجی تقریبات منانے کے طور طریقے اور عادات کو ملحوظ نظر رکھا۔
پہاڑی زبان بولنے والوں کی نشاندہی کے لئے کمیشن نے پہاڑی ارکان قانون سازیہ ، سرپنچوں ، ایڈوائزری بورڈ کے ارکان کو بھی اختیار ات دئیے ۔علاوہ ازیں کسی بھی شخص کو اس زمرے میں ریزرویشن کے فوائد کا دعویٰ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے وضع کئے گئے دیگر دستاویزی ثبوت بھی پیش کرنے ہوں گے ۔
نوٹ: فاضل مقالہ نگار ناظم اطلاعات ہیں۔