ہندوستان کی وزارت داخلہ سنگ سرخ میں لپٹی ہوئی اُن عمارات میں سے ایک ہے جو فرنگیوں نے مشرق میں سے جڑی ہوئی دہلی کے بیچوںبیچ مغرب کی عمارتی روایت کے عین مطابق تعمیر کروائیں ۔ ایک طرف جامع مسجد و چاندنی چوک سے جڑا ہوا قلعہ معلی سے وابستہ علاقہ اور دوسری طرف نظام الدین اولیاء ؒ کی درخشاں خانقاہ کی حدودنے دہلی کو مغربی یلغار کے باوجود وہی کا وہی رکھا،جہاں وہ صدیوں سے زمانے کی کرم فرمائیوں یاستم ظریفیوں کے باجود قائم و دائم رہی اور جس کے عمیق و تاریخ ساز مشاہدے میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بے خود ہو کے فرما گئے ؎
سواد ر رومۃٰ الکبری میں دلی یاد آتی ہے
وہی عظمت وہی عبرت وہی شان د لاویزی
فرنگیوں کے خروج کے بعد آزاد ہند کے نئے حاکم وسیاست کے برگذیدہ رہنما شان و کروفرسے اُنہی عمارات میں بہ نفس نفیس تشریف فرما ہوئے جنہیں وہ جبر و استبداد کی علامت سمجھتے تھے اور اِنہی عمارات کے شمالی بلاک میں وزارت داخلہ کا مسکن قرار پایااور شروع سے ہی ہند کے سیاسی میدان میں طاقتور ترین رہنما اُس کے دعویدار رہے۔ہندوستان کے علاوہ دوسرے جمہوری ممالک امریکہ و برطانیہ میں وزارت داخلہ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ امریکہ میں وزارت خارجہ اہم ترین وزارت مانی جاتی ہے جبکہ برطانیہ میں وزارت اقتصاد وزارت عظمی کے بعد درجہ بندی میں فوقیت کی حامل ہے اور وزیر اقتصاد جو ’چانسلر آف ایکس چکر ( Chancellor of Exchequer )‘ کہلاتا ہے وزیر اعظم کے مسکن 10ڈوننگ سٹریٹ کے متصل 11 ڈوننگ سٹریٹ میں سکونت پذیر ہوتا ہے جو کہ اِس منصب کی اہمیت کا مظہر ہے۔ مغربی ممالک میں وزارت داخلہ (ہوم آفس: Home Office) زیادہ تر تارکین وطن کے مسائل میں اُلجھی رہتی ہے اگر پہ آج کل کے زمانے میں شدت پسندی نے وزارت داخلہ کے رول کو وسیع تر کرلیاہے۔بھارت میں البتہ آزادی کے شروع سے ہی وزارت عظمی کے بعد اِس وزارت کو بھارتی کابینہ میں اہم ترین عہدہ مانا جاتا ہے اور دور حاضر میں اِس وزارت میں اتر پردیش کے راجناتھ سنگھ براجمان ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ گزشتہ ہفتہ ریاست جموں و کشمیر کے دورے پہ آئے اور اُنہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک کھلے ذہن کے ساتھ آ رہے ہیں۔وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ جو بھی اُن سے ملنا چاہے وہ مل سکتا ہے۔راجناتھ سنگھ نے جو کھلے ذہن کی بات کی وہ اُن اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا جو اُن کے پیشرؤں نے کشمیر کے ضمن میں اٹھائے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزارت داخلہ میں سردار پٹیل سے لے کے راجناتھ سنگھ تک سیاسی داستاں ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت سے مکمل طور پہ جوڑنے میں جو بھی ممکن ہو سکے وہ کیا جائے۔اِس پالیسی کو لاگو کرنے میں زمانے کی ہوا دیکھ کے جب جب جو کچھ بھی ممکن ہو سکا وہ بلا دریغ کیا گیالہذا بھارت سرکار کی ایسی وزارت سے جس کے کام و دام میں ایک مسلسل پالیسی کا اجرا ہو رہا ہے کھلے ذہن کی توقع رکھنا بیجا ہو گا ۔
1947ء میں برطانوی ہند دو مملکتوں میں تقسیم ہوا ہندوستان اور پاکستان اور برطانوی ہند کے مسلم اکثریتی علاقوں سے پاکستان کی تشکیل ہوئی۔برطانوی ہندکے سیاسی نقشے میں ایسی کم و بیش 600 ریاستیں بھی تھیں جو تاج برطانیہ کے زیر سایہ اپنے اپنے راجواڑوں میں خود مختار تھیں۔اپنی آبادی کے مذہبی خد و خال و جغرافیائی حد و بند کو مد نظر رکھتے ہوئے اِن ریاستوں نے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کو جوڑنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ تاج برطانیہ کا حفاظتی سایہ اُن کے سروں سے اٹھ چکا تھا اور آزاد رہنے کی کوئی سیاسی گنجائش کا امکان نہیں تھا۔ حیدر آباد و جموں و کشمیر جیسی بڑی ریاستوں کیلئے یہ مشکل کی گھڑی تھی اور آزاد رہنا اُن کا پہلا آپشن تھاجسے نا ممکن بنا دیا گیا۔بھارت میں وزارت داخلہ کی زمام سردار پٹیل کے ہاتھوں میں تھی اور اپنے عہدے کی مناسبت سے وہ ریاستوں کی وزارت ،منسٹری آف سٹیٹس بھی سنبھالے ہو ئے تھے۔ سردار پٹیل کی سرکردگی میں وزارت داخلہ کا حدف ریاستوں کو دہلی کی مرکزی سرکار سے جوڑنا تھا ۔اپنے احداف کی تکمیل میں جہاں نرمی سے جوڑنے میں مشکل پیش آئی وہاں طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا گیاجس کی تاریخی مثالیں حیدر آباد کی ریاست ہے۔جہاں تک ریاست جموں و کشمیر کی بات رہی وہاں ہند و پاک کے مابین رسہ کشی ایک جھگڑے کی صورت منظر عام پہ آئی ایک ایسے جھگڑے کی جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ریاستوں کو دہلی کی مرکزی سرکار سے جوڑنے کے عمل کے پس منظر میں کانگریس پارٹی کے سیاسی احداف تھے جو کانگریس کی پالیسی سے تشکیل پائے تھے۔
آل انڈیا کانگریس کے اونچے پایے کے لیڈرپنڈت نہرو و سردار پٹیل ایک مضبوط مرکز کے طرفدار تھے ۔وسیع معنوں میں ایک فیڈرل نظام جہاں ریاستوں کے پاس بیشتر اختیارات رہتے کانگریس و مسلم لیگ کے مابین اختلافات کا سبب بن گیا۔مسلم لیگ نے برطانوی کیبنٹ مشن کی سفارشات پہ مبنی ایک ایسے متحدہ ہندوستان میں رہنے پہ آمادگی ظاہر کی تھی جہاں شمال مغرب و شمال مشرق کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمین ایسی حکومتیں تشکیل دیں جن کے اختیارات وسیع ہوں ۔کانگریس نے پہلے تو آمادگی ظاہر کی لیکن بعد میں پنڈت نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں نظر ثانی کی بات کی ۔اِس بیاں کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح ایک علحیدہ مملکت سے کم کسی بھی مفاہمتی فارمولے پہ آمادہ نہیں ہوئے حالانکہ مہاتما گاندھی نے پنڈت نہرو کی سیاسی غلطی کو سدھارنے کی کافی کوشش کی لیکن بے اعتباری کی فضا میں کسی کو کسی پر اعتبار نہیں رہااور یہ پاکستان بننے پہ منتج ہوا۔
تقسیم ہند کے بعد کانگریس کی سیاسی روش رنگ لائی اور سردار پٹیل کی سر کردگی میں وزارت داخلہ ایک مضبوط مرکز کو عملی بنانے میں مصروف ہوئی۔ راج گھرانوں سے پٹیل کے خصوصی تعلقات آشکارا تھے اور اُن کے سیاسی اثرات کہیں بھی اتنے واضح نہیں رہے جتنے کہ ہند کے رقبے کے لحاظ سب سے بڑے راجواڑے جموں و کشمیر میں رہے۔ سنگھ پریوار کے کاری کرتا اگر چہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ کشمیر کا مسلہ اقوام متحدہ میں لے کرنہرو نے ہندوستان کیلئے پریشانی پیدا کر لی لیکن یہ دہراتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ پہ اپنا دست شفقت رکھ کے پٹیل نے جموں اورکشمیر کے بیچ ایک ایسی خلیج قائم کر لی جو پاٹے سے نہیں پٹتی او ر جو زہر اِس بد نصیب ریاست کی رگ رگ میں سرایت کر گیااُس زہر نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی فضا کو مسموم کر کے رکھ دیا ہے بلکہ اُس کے دور رس اثرات پورے بر صغیر میںمحسوس کئے جا رہے ہیں۔ جہاں تک اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسلہ لے جانے کی بات ہے ،ہندوستان شاکی بن کے عالمی مجلس میں نہیں جاتا تو مقدمہ پاکستان کی جانب سے پیش ہوتاویسے بھی سامراجی طاقتیں شروع سے ہی اِسی نظریے کی حامل رہیں کہ بر صغیر کی دو مملکتوں کی بیچ باہمی تناؤ ااُن کے تحفظات کے لئے ضروری ہے۔
پٹیل کو جہاں ’ ہند کا مرد آہن‘ مانا جاتا ہے وہی یہ بھی صیح ہے کہ آزادی کی شروعات میں ہی اُنہوں نے ایک ایسی وزارت داخلہ کی بنیاد ڈالی جس پہ اقلیتوں کو کوئی اعتماد ہی نہیں رہا ۔ آزاد ہند کے کل اجزاء کو جوڑنے میں پٹیل کی کار کردگی کو اگر چہ بہت سراہا جاتاہے لیکن یہ کارنامہ بھی اُن کی ذاتی غرض سے مبرا نہ رہا۔ہند کے مہاراجوں کو بھاری رقومات سے نوازنے میںاُنہوں نے خزانوں کے منہ کھول دئے منظور بر اینکہ سیاسی رسہ کشی میں اُن کی حمایت حاصل رہے۔ مہاراجوں کا اقتدار اگر چہ ختم ہوا لیکن اپنے راجواڑوں میں اُن کا اثر و رسوخ باقی رہا اور توہم پرستی کی بھر مار میں آبادی کے با اثر افراد سمیت عام جنتا بھی اُنہیں آسمانی مخلوق کا درجہ دیتی تھی ۔پٹیل کے بعد اُن کے جتنے بھی جانشین آئے جن میں کے این کاٹجو، جی بی پنت،لال بہادر شاستری اور گلزاری لال نندہ شامل رہے اُنہوں نے ایک مضبوط مرکز کیلئے کام کیا۔کہا جا سکتا ہے کہ ریاستوں میںبیشتر اختیارات کی بات کیلئے وزارت داخلہ کا ذہن کبھی بھی کھلا نہیں رہالہذا راجناتھ سنگھ سے یہ توقعہ رکھنا کہ وہ اپنی وزارت کی روش کے خلاف ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ آئینی مسائل کے ضمن میں مثبت روش کے ساتھ سامنے آئیں گے بعید ہے۔راجناتھ سنگھ کی روش کی بنیاد وزارت داخلہ کی پالیسی کی عکاس ہے ثانیاََ بھاجپا کا شروع سے ہی یہ دعوہ رہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حثیت نا قابل قبول ہے ثالثاََ جموں کے چند میدانی اضلاع کے مفادات کو فرقہ واریت کے زمرے میں تول کے ریاست کی اکثریت مطلق کے خلاف صف آرا کرنابھاجپا کا شیوہ رہا اور یہ سلسلہ1947ء سے ہی شروع ہوا۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے جب 1947ء میں اکتوبر کے اختتامی ہفتے میں قبائلی یلغار کے بعد سرینگر چھوڑ دیا تو جموں میں حالات بد سے بد تر ہونے لگے ۔ مسلمانوں پہ ایک قہر ٹوٹ پڑا۔سرینگر میں شیخ محمد عبداللہ کی سر براہی میں ایک عبوری انتظامیہ نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن جموں میں اِس انتظامیہ کا اثر نہ ہونے کے برابر تھا۔ شیخ صاحب کے ساتھ پنڈت نہرو کی ہمدردیاں تھیں جب کہ مہاراجہ ہری سنگھ ا ور اُن کی مہارانی تاراکو پٹیل کا آشیرواد حاصل رہا۔اِس طرح نہرو و پٹیل کی دہلی میں سیاسی رسہ کشی کے اثرات کشمیر پہ منڈلانے لگے ۔قومی سلامتی کومد نظر رکھ کے،کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کی مشکلات کے پیش نظراور عالمی سیاست میں ہندوستان کے تحفظات کو سمجھتے ہوئے،ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اپنے سیاسی اکھاڑے کو دہلی تک محدود رکھ کے، ہندوستان کے یہ دو برگزیدہ رہنما کشمیر کی نسبت دہلی کے لائحہ عمل میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس اور ایسے میں ہند سے شیخ عمداللہ نے دو قومی نظریے کو رد کرتے ہوئے جو ناطہ جوڑا تھا اُس کی بنیاد شروع میں ہی مخدوش نظر آنے لگی۔
ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ آئینی رشتہ شرائط کے ساتھ ایک عارضی الحاق پہ مبنی تھا ۔اولین مراحل میں بھارت سرکار تین امور کی نگراں تھی جن میں خارجی امور،دفاع و رسل و رسائل شامل تھے لیکن یہ صورت حال بھارت سرکار کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہی ۔الحاق کا عارضی ہونا اِس حقیقت کا غماز رہا کہ ریاست جموں و کشمیر کا سیاسی تصفیہ ہونا باقی ہے اور اِس امر کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حق خود ارادیت کے عالمی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آزادانہ رائے شماری کے حق میں فیصلہ صادر کیا۔1950ء کے دَہے کے وسطی سالوں تک بھارت نے رائے شماری کے بارے میں حامی بھری لیکن اُس کے بعد پاکستان کا امریکہ و اُس کے حامی ممالک سے دفاعی معاہدوں میں بندھنے کی بات کو لے کر بھارت اپنے وعدے پہ قائم نہیں رہا ۔اِسی کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ ہند نے یکے بعد دیگرے اُن آئینی دفعات کی بیخ کنی شروع کی جو کہ ریاست کی داخلی خود مختاری کی ضامن تھیں۔
ہند کی فرقہ پرست تنظیموں کی سر پرستی میں جموں میں پرجا پریشید کا قیام عمل میں آیا جن کا نصب العین ’ایک نشان،ایک پردھان،ایک ودھان‘ تھا اور بنیادی مقصد ریاست کی اندرونی خود مختاری اور دفعہ 370کا خاتمہ تھا۔ اِسی دفعہ کے تحت ہند کشمیر الحاق کی بنیاد رکھی گئی جس کا مدعا و مقصدریاست جموں و کشمیر کو تحفظ فراہم کرنا تھا ۔پرجا پریشد کے ہنگامے نے دہلی اور سرینگر کی نفسیاتی دوری کو وسیع سے وسیع تر کر لیا اور اندرونی خود مختار ی میں رخنہ اندازی کے ہر اقدام سے شیخ صاحب کی بوکھلاہٹ شدید سے شدید تر ہوتی گئی۔ انجام کار 1953 ء میں نہرو شیخ دوستی میں اِس حد تک دراڑ آئی کہ پنڈت نہرو کو کشمیر کے شیر کو پنجرے میںبند کرنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ پرجا پریشد بعد میں جن سنگھ ادر آخر کار بھاجپا میں اُبھر آئی۔
آئینی ضمانتوں کی بیخ کنی 1952ء میں دہلی ایگریمنٹ سے شروع ہو گئی جب ریاستی اقتصاد پہ دہلی کی نگرانی کا آغاز ہوا۔شیخ محمد عبداللہ کو پابند سلال کرنے کے بعد وزارت داخلہ کی ایجنسیوں نے یکے بعد دیگرے ایک مخدوش انتخابی عمل سے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی من پسند سرکاریں بر سر اقتدار لا کے اُن سے آئینی رخنہ اندازیوں کیلئے موافقت حاصل کر کے آئینی ضمانتوں کو کوکھلا کرنا شروع کیا۔دفعہ 370 کا وجود اگر چہ باقی ہے لیکن اُسے بہت حد تک کھوکھلا بنا دیا گیا ہے۔ آئینی ضمانتوں میں 35Aکا وجود گر چہ باقی ہے لیکن اُسے عدالتی اپیلوں کے چلینجوں کا سامنا ہے۔یہ دفعہ ریاست کے پشتنی باشندوں کو تحفظات فراہم کرتی ہے جن میں ریاست میں بلا شرکت غیرے اقامت ،حصول معاش اور سرکار سے وظائف حاصل کرنے کا حق اُنہی کو حاصل ہے۔راجناتھ سنگھ نے گر چہ اِس دفعہ کو محفوظ رکھنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن یہ خدشہ باقی ہے کہ اُن کے پیشرو گلزاری لال نندہ کا وعدہ ثابت نہ ہو جنہوں نے دفعہ 370کو باقی تو رکھا لیکن اُنہی کے بقول اُسے ایک ایسی سرنگ (ٹنل) بنا دیا جہاں سے ایک ایک کر کے ریاستی آئین کی بیخ کنی کی گئی۔
Feedback on<[email protected]>