گہری سیاہ شام تاریک راہوں پہ ماتھا رگڑ رہی تھی۔ راستہ پرُتھکن تھا۔ دور دور سے پرُ اسرار مخلوق کی آوازیں میری وحشت میں اور اضافہ کر رہی تھیں کہ اچانک مغرب کی طرف دور سے مُجھے چراغ کی دھیمی روشنی دکھائی دی ’’ شاید کسی غریب کی جھونپڑی ہے۔کیوں نہ آج کی رات وہاں پر ہی کاٹ لوں اور صبح اپنے منزل کی طرف روانہ ہوجائوں‘‘ میں اسی ارادے کے ساتھ آگے بڑھا۔تقریباََ ایک آدھ میل کی مسافت طے کرنے کے بعد میں اُس جھونپڑی کے سونے آنگن میں پہنچ ہی گیا۔
میں چونکا۔ یہ غریب شکور کی جھونپڑی تھی۔ جو اپنی بہادوری کی وجہ سے اُس سارے علاقے میں پہلوان کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ سردی کی راتوں میں ٹھٹھرتی ٹھنڈ سے بچنے کے لئے اُس نے کھڑکیوں اور روشن دانوں پر پرانے اخبار لگائے تھے۔ پرُانے اخباروں کی بے ترتیب سُرخیاں کسی پرانے اُجڑے ہوئے اِطلاعاتی مرکز کی یاد تازہ کرتی تھیں۔ جھونپڑی کے اندر سے کوئی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ’’ بیچارے مُفلس کی رات ! ہمیشہ اپنے ساتھ گھائو کی سوغات لیکر آتی ہے۔‘‘
میری سوچ کے صفحہ پر ایک دم سے یہ عبارت رقم ہوئی۔ اپنا ڈیرہ جما لیا۔ میں اس غمناک منظر میں کھو گیا۔ میرے ذہن کے سکرین پر انوکھے واقعات کھیلنے لگے!
کمرے کے اندر جل رہے چراغ کی دھیمی لو روشن دان پر چپکے پھٹے پُرانے اخبار پر اپنی جگہ تلا شنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی! سیاہ رات اب پوری طرح غریب کی جھونپڑی کا پہرہ دینے لگی۔
’’کہیں سے کوئی بھی سدا سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ہر سو قبرستان کا سکوت!؟ لیکن آواز آئے بھی تو کہاں سے؟ لوگوں نے اپنے آنگن اونچے مفیلوں سے گھیرے رکھے ہیں! گھروں کو زندانوں میں تبدیل کر رکھا ہے! ہمسایہ اور ہمسایہ کے درمیان دیوار، بھائی اور بھائی کے درمیان دیوار، یہاں تک کہ بے چارے کُتے بھی اب آنگن دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں!؟ تنگ گلیوں میں کالی رات کالے ناگ کی طرح سایہ نگل رہی ہے۔ بچوں کی دُنیا ویران ہوگئی! تب رات گئے تک بچے کھیلنے میں مشغول رہتے تھے۔ دوشیزائیں چاندنی رات میں ’’روف‘‘ گانے میں مست ہوجایا کرتی تھیں۔ مرد لوگوں کبڈی کھیلتے تھے۔ ایک عجیب چہل پہل ہوا کرتی تھی! لوگ آپس میں غم اور خوشیاں بانٹتے تھے۔ اُف! وہ دلفریب منظر کہاں گیا؟ کس کی نظر لگ گئی اس وادی گلپوش کو!؟‘‘ شاید میں احساسات کی تختی پر اور کچھ لکھتا۔ لیکن دفعتاََ میرے اَدراک کا دریچہ وا ہوا جب شکور کی بیوی فاطمہ برآمدے پر کتوں کو کھانا ڈالنے کے لئے آئی۔اُس کے ایک ہاتھ میں مٹی کا بوسیدہ چراغ جل رہا تھا، جسکی روشنی دھیرے دھیرے مر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں کتوں کے لئے کھانا تھا۔ برآمدے پر فاطمہ نے زور سے کتوں کو آواز دی۔
کوچ ۔ کوچ۔ کوچ۔ کوچ! لخت ایک لحظہ میں دس بارہ کُتے فاطمہ کے اِرد گھر جمع ہوئے۔ آناََ فاناََ کتوں نے سارا کھانا کھا لیا اور فاطمہ کے ارد گرد پیارے سے اپنی دُمیں ہلانے لگے۔ فاطمہ پر سکون لہجے میں کتوں سے یوں مخاطب ہوئی۔
’’کھائو۔ کھائو ۔ کھائو میرے یوسف کے نام میں کبھی بھی آنگن کی دیوار بندی نہیں کروں گی۔ تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم سب شام ہوتے ہی میرے آنگن میں جمع ہوجایا کرو۔ میں روز تمہیں بھر پیٹ کھانا کھلاتی رہوں گی۔ اور ہاں! صرف میرا یوسف سلامت گھر پہنچے۔ پھر دیکھنا تم عیش کرو گے!‘‘
سب کتے اپنی دُمیں ہلاہلا کے فاطمہ کے تئیں وفاداری کا اظہار کرنے لگے۔
فاطمہ کا دھیان اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے میں نے زور زور سے کھانسا۔
’’تُم۔!؟‘‘ فاطمہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’ ہاں ۔ ہاں میں‘‘ پھر الفاظ میرے گلے میں ہی اٹک گئے۔
کُچھ۔کُچھ۔کُچھ پرواہ نہیں ۔ آجائو۔ آجائو ۔ اندر آجائو۔‘‘ فاطمہ نے مجھ سے کہا۔
چراغ کی دھیمی روشنی میں میری نظر فاطمہ کے چہرے پر پڑی، جو کبھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا لیکن آج وہ چہرہ مُرجھائے ہوئے پھول کی مانند لگ رہا تھا۔ تب فاطمہ حُسن کی دیوی کہلاتی تھی اور آج افلاس زدہ بے چاری فاطمہ کے چہرے سے اُسکی بے بسی اور غم کی کربناک داستان ٹپک رہی تھی۔!
اُس غمناک واقعہ کے بعد بے چاری فاطمہ گونا گوں مصائب و مشکلات کا شکار ہوگئی۔‘‘ میں سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوبنے ہی والاتھا۔
’’کہاں کھو گئے تم!؟‘‘ فاطمہ نے حیرانگی میں مجھ سے پوچھا۔
’’ کہیں نہیں۔ میں ۔میں بالکل تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘ میں نے فاطمہ سے کہا۔
’’ آئو۔ آئو ۔ اندر آجاو‘‘ فاطمہ نے اندر آنے کے لئے مجھ سے بھر منت سماجت کی۔
’’ اندر کون ہے؟‘‘ میں نے فاطمہ سے پوچھا۔
’’ زندہ لاش!‘‘ فاطمہ نے دھیمی آواز میں بولا۔
’’ میں۔ میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے فاطمہ سے پوچھا۔
’’ہاں ۔ وہ ۔ وہ شکور اب اپاہج ہوچکا ہے، جو کبھی اپنی بہادری کی وجہ سے سارے علاقے میں پہلوان کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ اکلوتے جوان بیٹے یوسف کو کھونے کے بعد وہ طرح طرح کے اِمراض کا شکار ہوا۔ اب ہم دونوں میاں بیوی صرف اس اُمید کے سہارے جی رہے ہیں کہ ہمارا یوسف کل نہیں پرسوں ضرور اپنے ابو کے لئے دوائی لیکر شہر سے واپس آئے گا۔ میرا یوسف دو مہنے کا دولہا ہے۔ میں اس کے ہاتھوں پر لگی مہندی کی خوشبو سونگھنے کے لئے ترس رہی ہوں۔‘‘
’’فاطمہ! تمہارا یوسف ضرور واپس آئے گا۔ مجھے پورا یقین ہے‘‘ میں نے فاطمہ کو تسلی دی۔
’’ میں ۔ اِسی اُمید کے سہارے جی رہی ہوں‘‘ اس کے ساتھ ہی فاطمہ نے چراغ کی لو بڑھادی۔ چراغ کی لو سے اچانک کھڑکی کے روشن دان پر لگائے گئے پُرانے اخبار کی شہ سرخی جیسے روشن ہوئی۔!
’’ شہر میں جلوس پر فائیرنگ سے دو مہینے کا دولہا ہلاک‘‘ سرخی کے ایک طرف یوسف کا فوٹو بھی چسپاں تھا۔ جونہی فاطمہ کی حسرت بھری نگاہیں فوٹو پر بیٹھ گئیں فاطمہ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دفتعاََ روشن دان سے اس پرانے اخبار کو اُٹھالیا۔ اس نے فوٹو کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ آنکھیں بند کیں اور ایک لمبی آہ بھر لی!!۔
میرے دولہے راجا!!‘‘ وہ بدقسمت ماں کی آخری درد بھر پُکار تھی جو تب اُس کے مُنہ سے نکلی جب اُس نے تصویر کو آخر بار چوما تھا۔
رابطہ؛آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ
موبائل نمبر؛9906534724