دوپانچ روز قبل ایک عجیب حادثہ ہوا(میں اسے حادثہ ہی کہوںگا کیونکہ میرے لئے یہ حادثے سے کم نہیں)۔ہم تین ساتھی،نئی ممبئی کے واشی اسٹیشن کے باہر کھڑے چائے پی رہے تھے۔ایک بھکاری آیا جس کے ایک ہاتھ پر پٹّی بندھی تھی۔مجھے لگا کہ اسے کچھ پیسے دینے چاہئیں اور میں نے چند سکے تھما دئے۔وہ مجھے اور میرے کاروبار کو دعائیں دینے لگا ۔ میں نے کہا کہ یہ دعا کرو کہ مودی جی کرسی سے اتر جائیں،خود بہ خود ملک ٹھیک ہو جائے گا۔وہ میرے طنز کو سمجھ گیا اور جواب دیا کہ مودی جی نے غلط کام تو کئے ہیں لیکن کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں ۔اِتنا ہی نہیں دو چار منٹ کے بعد وہ واپس آیا اور معذرت کر کے(اُس کی ہمت تودیکھئے) پھرکہنے لگا کہ دیکھئے ،مودی چائے بیچتا تھا اور آج کہاں سے کہاں گیا!ہم تین میں ایک سریواستوا بھی تھے،وہ بولے:انصاری جی !یہ میڈیا کا کمال ہے۔یہ بھکاری وہی بول رہا ہے جو میڈیا نے پھیلایا(propogateکیا ) ہے اور میڈیاابھی بھی وہی کر رہا ہے۔گجرات کے اوپینیئن پول کو تو دیکھا ہی آپ نے ۔در اصل ووٹ دینے والا طبقہ یہی ہے اور اُس کے اعصاب پر میڈیا نے جو اثر ڈالا ہے وہ اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت انتہائی دگرگوں ہوتے ہوئے بھی مودی عوام کی پہلی پسند ہیںاور مودی جی کا جادو ابھی بھی برقرار ہے کیونکہ اُنہیںپتہ ہے کہ عوام کو کیا پسند ہے۔دوسرے لفظوں میں اُنہیں کیسے مسحور کیا جاتا ہے ،وہ مودی سے بہترفی الحال کوئی نہیں جانتا۔اس بات سے کسے انکار ہے کہ وہ ایک بڑے سیاسی بازی گرہیں،اس لئے عوام کو وہی دکھائی دے رہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے لاکھ پریشانیاں عوام کو بھگتنی پڑی ہوں لیکن وہ یہ سمجھانے میں کامیاب ہیں کہ یہ سب اُنہوں نے غریب عوام کے لئے کیا ہے اورنوٹ بندی کر کے امیروں کی تجوریوں کو خالی کیا ہے ۔انہوں نے یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ ا میر اگر پیسے کماتے ہیں تو اُنہیں ٹیکس بھی ادا کرنا ہوںگے،اِس میں خرابی کیا ہے؟حالانکہ اس زد میں امیر کیا غریب کیا ،سبھی ہیں لیکن مودی کو چونکہ نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے،اس لئے قبول ہیں۔ اِس پروپیگنڈہ کی تشہیر میں میڈیا نے دل کھول کر مودی کا ساتھ دیا ہے۔
اب آئیے،ویسٹرن ریلوے اسٹیشن کے پُل کی تعمیر پر بات کرتے ہیں۔ایک ماہ قبل ۳۰؍ستمبرکو ایلفنسٹن روڈ ریلوے اسٹیشن پر ایک بڑا حادثہ ہوا تھا،جس میں بھگڈر کی وجہ سے تقریباً۲۵؍افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔حادثے کا سبب پُل کو بتایا گیا تھاجو بہت تنگ ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی سب نے دیکھا کہ کس طرح وزیر دفاع سیتا رمن نے موقعۂ واردات کا معائنہ کیا اور اعلان کیا کہ اُس خاص پُل کی تعمیر فوج کے ذریعہ کی جائے گی۔ریلوے کا معاملہ تھا تو وہاں وزیر ریل کا ہونا ضروری تھا ،سو پیوش گوئل وہاں موجود تھے۔چونکہ ممبئی ،مہاراشٹرمیں معرکہ سر انجام دینا ہے تو وزیر اعلیٰ کی موجودگی بھی اہم تھی ،سو دیوندر فرنویس بھی وہاں موجود تھے۔اب اتنے سارے وی آئی پی موجود ہوں تو میڈیا کا وہاں پہنچنا ضروری تھا ،سو وہ بھی وہاں موجود تھا اور پوری کارروائی براہ راست نشر کر رہا تھا،خاص طور پر سیتارمن کے ایکشن کو زیادہ فوکس کر رہا تھا۔دیکھتے ہوئے ایک وقت تو یہی لگا کہ کہیں ہم اسمرتی ایرانی کو تو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ خیر ،اِن ساری باتوں سے وزیر اعظم واقف نہ ہوں،ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔اُن کے مشورے کے بغیر مجھے نہیں لگتا کہ کابینہ میں ایک پتہ بھی ہِلتا ہو! اسے مشورہ نہیں بلکہ حکم کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
پُل کی تعمیر اور وہ بھی فوج کے ذریعے! عجیب لگتا ہے نا!لیکن مودی حکومت کے کارنامے ایسے ہی ہیں۔کام کم کرو اور دکھاؤ زیادہ۔یا اُلٹا پُلٹا کام کرو تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکو اور جس پر لوگ چرچا کریں۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ اوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لئے عجیب اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں۔بعض ہِپّی رکھ لیتے ہیں تو بعض اپنے چہرے کو اس طرح بنا دیتے ہیں مثلاً داڑھی عجیب سی رکھ لی،مونچھوں کا کَٹ بے ڈھنگا کر لیا،لباس کچھ مختلف زیب تن کئے،کچھ کندھوں سے جھولالٹکا لیتے ہیں تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔حالانکہ وہ ہوتے کچھ بھی نہیں ہیں، صرف نمائش کرتے ہیں یعنی وہ جو نہیں ہوتے ہیں ویسا ہونے کا سوانگ کرتے ہیں۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ لال قلعے کی فصیل سے وزیر اعظم مودی نے بلوچستان کا ذکر چھیڑا تھا لیکن اب اُس کی کوئی بازگشت سنائی نہیں دیتی۔اصل مسئلہ کشمیر کا تھا لیکن مودی جی نے اسے بلوچستان سے جوڑ دیا جس کا کوئی سر تھا نہ پیرلیکن توجہ تو بھرپور حاصل کی ۔اب آج کشمیر میں وہی کیا جس سے پہلے انکار کرتے رہے ہیں۔اُسی طرح سرجیکل اسٹرائک والا معاملہ تھااورنوٹ بندی کو بھی اسی زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ان سبھی ’’کارناموں‘‘ سے کچھ نہ کچھ فائد ے ضرور حاصل ہوئے لیکن وہ سب سیاسی فائدے تھے جو محض ایک پارٹی نے اُٹھائے ،یہ اور بات ہے کہ ہندوستان گھاٹے میں رہا ۔آج بھی جو جو اقدام مودی جی اور ان کی حکومت کر رہے ہیں وہ صرف اپنی پارٹی کے لئے کر رہے ہیں ،انہیں ملک سے کوئی مطلب نہیں ہے۔
پُل بنانے کے لئے سیکڑوں ٹھیکے داریعنی کنٹریکٹرلائن میں کھڑے ہیں ۔اچھے اور بڑے کنٹریکٹر جن پر ہندوستان کو ناز ہے۔مثلاً گیمن اِنڈیا، لارسن اینڈ ٹوبرووغیرہ۔یہ نہ صرف ہندوستان میں کام کرتے ہیں بلکہ ملک کے باہر بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ان کے رہتے ہوئے آرمی کے ذریعے ٹیکنیکل کام کروانا ، ایںچہ معنی دارد؟ایسا محسوس ہوتا ہے بلکہ لوگ باگ یہ پوچھنے لگے ہیں کہ فوجی لوہے اور کنکریٹ اُٹھا اُٹھا کرپُل بنانے کا کام کریں گے کیا؟یعنی کہ وہ مشین بن جائیں گے کیا؟وغیرہ وغیرہ۔ فوج کا پہلاکام سرحد کی حفاظت ہے۔اُس کے بعد اندرون ملک امن و چین غارت ہونے کی صورت میں ان کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ایمر جنسی جیسی صورت حال پیدا ہو گئی تو اُس وقت فوج کو پکارا جاتا ہے ، سب سے بڑی بات یہ کہ ریاستی حکومت کی پولیس یا کوئی اور محکمہ جب ناکام نظر آتا ہے،اُس وقت فوج کی ضرورت پڑتی ہے۔ایلفنسٹن روڈ ریلوے اسٹیشن کے پُل کی تعمیر کو کیا اِن زمروں میں رکھا جاسکتا ہے؟اگر ہاں، تو ممبئی کے بیشتر اسٹیشن اس کے مستحق ہیں کہ اُن کے پُلوں کی تعمیر اسی ڈھنگ یعنی فوج سے کرائی جائے ۔اس کے علاوہ کیا ریلوے کے تمام تکنیکی ماہرین ناکارہ ہو گئے ہیں؟کیا ممبئی جیسے عالمی معیار کے شہر میںماہر آرکیٹیکٹ ،انجینیئر، آر سی سی کنسلٹینٹ کی کمی ہے؟
یہ حکومت صرف شہرت کی بھوکی ہے۔اس کو اپنی ٹی آرپی سے مطلب ہے۔ٹی آر پی کا دوسرا مطلب ’’جیت‘‘ بھی ہے۔مختلف انتخابات میں جیت درج کرنا اس کا کام رہ گیا ہے یعنی کہ صرف حکومت بن جائے اور اس کے بعد ریاست بھاڑ میں جائے۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے فرقہ واریت کا اس کے پاس تیار بہ تیار ہتھیار بھی ہے اور یہ کبھی بھی اس کا استعمال بے چوں و چرا کر لیتی ہے۔حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ بڑی آئی ٹی کمپنیوں کی خدمات بھی لیتی ہے جو اس کے لئے پروپیگنڈہ مشینری کا کام انجام دیتی ہیں ۔حال ہی میں اس کا انکشاف بھی ہوا کہ کس طرح ’’سِلور ٹیک‘‘ نامی کمپنی نے اس طرح کا کنٹریکٹ لیا اورحکومت کو مدد بہم پہنچائی۔اس لئے اس حکومت کا سب کچھ کاغذی پیرہن ہے، حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔جس طرح شیئر بازار میں کاغذ بکتے ہیں اور اُن کا حقیقی کمپنی سے کوئی سروکا ر نہیں ہوتا (یعنی کہ کمپنی کی ملکیت میں اضافہ نہیں ہوتا )بلکہ کاغذ یعنی شیئر کی خرید و فروخت سے ایک شخص کو نقصان اور دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں اور ہمیں اُس چیز پر بھروسہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے بلکہ مجبور کیا جا رہا ہے جو حقیقت میں ہے ہی نہیں یعنی کہ مکمل سراب جیسی کیفیت ہے۔اس شبھ کام میں چند’’ دانشور‘‘ حضرات بھی پیش پیش ہیں جوفوری فائدے کے لئے اپنے ضمیر کا سودا تک کر لیتے ہیں۔ملک تو بہر حال ایک عجیب حال سے دوچار ہے۔اِس گھٹن اور اُلجھن والے ماحول میں بھی جیت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883