رئیس یاسین
جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ اک پر فتن دور ہے اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنا بہت زیادہ دشوار ہو گیا ہے۔ ایسے میں ہمارے قوم کا مستقبل ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ جوان اس ماحول میں رہ کر بہت سے جنگ لڑ رہا ہوتا ہے ۔ قدم قدم پر آزمائشوں نے گھیر لیا ہے۔ ایسے میں نوجوان لڑکی اور لڑکے کا ایک ہی تعلیمی ادارے میں ایک ساتھ پڑھنا کسی فتنے سے کم نہیں۔ ہمارے نوجوان غیر محرم کے فتنے کی جال میں کیوں گر جاتا ہے، اس کی وجہ کیا ہےاور اس کا کیا علاج ہے،کبھی کسی نے غور کیا ؟ پہلا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو وہ والدین ہیں۔ جہاں وہ اپنے بچے کو اعلیٰ منصب پر دیکھنا چاہتے ہیں وہیں ان کو یہ فکر ہونی چاہیے کہ اولاد صالح بن جائے۔ والدین کو اس معاملے میں اولاد سے کھل کرمحبت اور شفقت کے ساتھ بات کرنی چاہئے۔ تاکہ بچوں میں ایسا اعتماد پیدا ہوجائے کہ وہ بھی اپنی بات اپنے والدین کے ساتھ شیر کرسکیں، والدین کو اپنے بچوں کو اخلاقی تعلیمات یاد کرانی چاہیے۔ ہر وقت اُنہیں اپنائیت کا احساس دلایا جائے۔ والدین کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اب وہ حالات نہیں رہےہیںکہ اساتذہکی رہنمائی میںہماری اولاد محفوظ رہ سکیں۔ اسکول اب صرف رسم و رواج کے لیے رہ گئے ہیں،اب ان میں نہ تعلیم پر زور دیا جاتا ہے نہ اخلاق پر۔ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کودینی تعلیمات کے حصول پر بھی زور دیں۔تاکہ ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوجائیںاور برائیوں سے بچ پائیں۔قرآن پاک کی تعلیمات سے نوجوان میں جب فکر آخرت پیدا ہو جائے تو اس کے لیے نیکی کی راہ آسان ہو جائے گی۔عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہوسکتی ہے۔ غیر محرم کی محبت کو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ،اسلام میں رشتہ ہے صرف نکاح سے۔ جبکہ غیر محرم سے محبت سراسر شیطان کا وسوسہ اور اخلاق کی کمزوری ہے۔ کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی اس بُرائی میں آگیاہے تو اُسے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنا چاہیے۔ اُسے بُرائیوں سے بچنے کے لئے اکیلا کیوں نہ رہنا پڑے،یہی اس کے لیے بہتر ہے۔ فلموں اور ڈراموں سے، موسیقی سے بھی اجتناب کرنا چاہے۔اس لئےہر وقت اپنے نفس کی تربیت پر دھیان دیا جائے، اپنے روح کو پاکیزہ رکھیںاور پاکیزہ زندگی گزارنی چاہیے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں :’’ پاک اور نیک آدمی سے تمھیں بڑی پاکیزہ خوشبو آئے گی، خواہ اس نے کوئی خوشبو نہ لگائی ہو۔ روح کی خوشبو اس کے لباس اور بدن سے پھوٹ پڑتی ہے۔‘‘گویا ہم کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اپنی زندگی کو پاک دامن بنا سکتے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکے کو سمجھنا چاہیے کہ گناہوں کی زندگی سے وہ دنیا میں بھی پریشان رہے گا اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی۔ ایک نوجوان لڑکی جس کے پاس سب سے بڑا سرمایہ اس کی پاک دامنی ہوتی ہےاور اگر اُس پر دھبہ لگ گیاتو سماج کی نظروں میں اس کی کوئی وقعت نہیں رہے گی۔ ہمارے لئے قرآن پاک کی آیات، پیغمبروں کی سیرت، احادیث ِمبارکہ میں کامیاب زندگی کا سر چشمہ ہے۔ ایک نامحرم کے ساتھ تعلق رکھ کر ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، خود بھی بے سکون اور بے چینی کی زندگی گزارتے ہیں ،دنیا میں اور آخرت میں بھی ناکامی کا سامان پیدا کررہےہیں۔ دل ہر وقت بے چین رہتا ہے، وہ شخص جس کی وجہ سے بے چین ہے، اُس سے اگر کوئی حلال تعلق نہیں تو اسے اپنی زندگی سے نکال باہر پھینکنا چاہئے۔ اُس کے میسیجز، ای میلزاور تصویریںسب کچھ ڈلیٹ کرنا چاہئے اور اپنا رشتہ قرآن سے جوڑنا چاہئےتاکہ نظر صاف وپاک ہوجائے اور تو دل بھی محفوظ ہوجائے گا۔اس کے بعد آگے کی زندگی میں اس برائی سے بچنا چاہیے۔اور ہاں! صرف نظر کی حفاظت کرنا کافی نہیں۔ دل کا دھیان بھی بٹانا ہو گا۔ آپ کی کتاب کا آخری باب کہتا ہے کہ اپنے دل میں سب سے بڑی محبت الله کی محبت بسائی جائے، اُس سے تمام وسوسے دور ہوجائیں گے ۔جس نے بھی اپنے دل میں اللہ کو بسایا ہو ،خصوصاً جوانی میں۔اُسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گی۔یا رہے کہ ’’جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے ، بڑھاپے میں ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے ‘‘۔اب جب اولاد شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر یہ والدین پر اہم ذمہ داری ہے کہ ان کے لئے ایک نیک جوڑا تلاش کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میںوالدین بہت زیادہ دنیاداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نیک اور صالح نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس پُر فتن دور میں مشکلات کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے لئے صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر نیک اور پاکیزہ زندگی گزارہے ہیں۔ اسلام کو بحیثیت نظام زندگی اپنا کر زندگی گزرنے سے ہر مشکلات کا حل نکل آئے گا۔ اولیاء کرام بیماری کو پسند کرتے تھے لیکن گناہوں کو ایک پل کے لئے بھی پسند نہیں کرتے تھے۔
[email protected]