آج بیوی بچوں کے ہمراہ میوزیم سے لوٹتے وقت امجد صاحب کی نگاہ مسلسل زوبیہ پر مرکوز تھی انھوں نے نوٹ کیاکہ زوبیہ خاموش سی ہے ۔اس کا ذہن اپنے ٹھکانے پر نہیں ،جبکہ نہ صرف وہ گھر سے نکلتے وقت خوش باش تھی بلکہ میوزیم میں بھی چہکتی پھر رہی تھی! پھر کب؟ کیا ہوا کہ یہ گم صم سی ہوگئی ؟
امجد صاحب کی گہری نظر صرف زوبیہ پر قائم رہی- کہ دریں اثنا وہ شیشے کے گلاس میں پانی لے کر ان کے پاس آئی ، تو امجدصاحب نے بیٹی کو غور سے دیکھتے ہوئے دریافت کیا
'بیٹا !تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا؟ '
زوبیہ کےلبوں پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی
" میں ٹھیک ہوں پاپا ! میں سوچ رہی ہوں کہ اپنے وقت کے یہ بادشاہ جن کے نام سے ساری دنیا سہم جایا کرتی تھی، ہٹلر، مسولینی، وغیرہ وغیرہ ۔۔آج پتلے بن کر میوزیم میں کھڑے ہیں ، ہم میں سے کوئی نفرت و حقارت کوئی حسرت اور کوئی عبرت کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے –
وہ تو بعد از مرگ پتلے بنائے گئے ، لیکن ہمیں جیتے جی کس نے پتلا بنادیا؟؟
زوبیہ کے سوال پر امجد صاحب چکرا گئے کہ نو عمر لڑکی کے ذہن میں عالمانہ فکر؟ وہ سوچ میں پڑگئےکہ بیٹی کو کیا جواب دیں کہ وہ مطمئن ہوجائے ۔لیکن ان کے ذہن میں کوئی معقول جواب نہیں آیا ۔وہ پانی پینے لگے۔ جوابات تلاش کرتے ہوئے اپنے دل ودماغ میں موجود ذخیرہ کتب سے ان کتابوں میں سے چند کتابوں کے اوراق خیالوں کی ہوائیں پلٹ رہی تھیں۔
زوبیہ امجد صاحب کے پہلو میں صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی!
صدام حسین کے پتلے کے ہاتھ میں قرآن شریف تھمانا اپنے آپ میں غلط ہوسکتا ہے – لیکن میں اسے ایک اور زاویے نظر سے دیکھ رہی ہوں پاپا!
امجد صاحب کی فکر کی نیّاسوچ کے بھنور سے ابھری ، لیکن بالکل خالی اس نیّا میں سے جواب کی شکل میں ایک قطرہ پانی بھی نہیں چھلکا تھا۔
زوبیہ کی بات سن کر وہ چونک پڑے ،جس طرح اس سوال پرچونک پڑے تھے "ہمیں پتلا کس نے بنایا؟ ’’ہمیں‘‘ سے مراد انہوں نے صنف نازک سمجھا تھا۔۔ لیکن میری بچی ایک طبقے کی نہیں عالم انسانیت کی بات کررہی تھی افلاطون کی نانی بن کر،
امجد صاحب نے اپنی لاڈلی بیٹی کی دانش وارانہ خیالات پر اش اش کرنے لگے فخر سے کاندھا اُچکاتے ہوئے کہا
"ہمارے راہنماؤں نے جن میں ہر قسم کے راہنما شامل ہیں ۔سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی۔۔۔۔"
امجد صاحب زوبیہ کے مدبرانہ سوال پرنہایت خوش ہوتے ہوئے مصنوعی فکر مندی کے انداز میں جواب دیا۔
"نہیں پاپا ! میں نہیں مانتی ، ہم اپنی ساری ناکامیوں اور نااہلیوں کا ٹھیکرا سب سے زیادہ بے چارے مذہبی راہنماؤں کے سر پھوڑ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں اور خود کو بے بس و لاچار ٹھہرا کر نیک 'بننے کا جواز پیش کیا کرتے ہیں -میرے خیال میں یہ نہایت خطرناک رویہ ہے پاپا !
ہمیں کسی نے پتلا نہیں بنایا ، ہم خود پُتلے بن کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں!
قرآن صرف عبارت پڑھنے کی کتاب نہیں ہے پاپا۔ عمل کرنے کے لیے اُتاری گئی تھی ۔۔ہماری حیثیت 'پالتو طوطے(جو رٹا لگا کر کبھی اپنے مالک کو خوش کبھی عاجز کرنا جانتاہے اور اپنے مقاصد حاصل کرلیتا ہے ) کی مانند بھی نہیں رہ گئی کہ اذکار کے توسط سے اپنے حصول میں کامیاب ہوں لہٰذا دنیا کو مسخر کرنے کی صلاحیت ہم اپنے اندر پیدا نہ کرسکے-"
زوبیہ نے امجد صاحب کے سامنے مدلل نکتہ پیش کیا۔
امجد صاحب اس طرح خاموش کہ جیسے بیٹی زوبیہ کی ایک بات بھی نہ سنی ہو۔
زوبیہ والد کے پاس سے اُٹھ کھڑی ہوئی، گلاس اٹھایا پھر کمرے سے اس طرح نکلی کہ جیسے زوردار ہوا کا جھونکا پُتلے کو کمرے سے دھکادے کر باہر نکال دیا ہو!
���
نزدیک عبداللہ مسجد
رمیش پارک ، لکشمی نگر ،نئی دہلی 92