ریحانہ کوثر ریشی، منڈی،پونچھ
حکومت نے معذور افراد سمیت عام آدمی کو کفایتی، معیاری اور تیزی سے انصاف دلانے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ قانونی خدمات اتھارٹی (ایل ایس اے) ایکٹ 1987 سماج کے کمزور طبقات جن میں ایکٹ کی دفعہ 12 کے تحت آنے والے مستفیدین بھی شامل ہیں،کومفت اور مناسب قانونی خدمات فراہم کرتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ معاشی یا دیگر معذوری کی وجہ سے کسی بھی شہری کو انصاف حاصل کرنے کے مواقع سے محروم نہیں رکھا جاسکے۔اس سلسلے میں لوک عدالت منعقدکی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قانونی نظام کاعمل یکساں مواقع کی بنیاد پر انصاف کو فروغ ہو۔ اس مقصد کے لئے تعلقہ عدالت کی سطح سے سپریم کورٹ تک قانونی خدمات کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ مزید برآں انصاف تک یکساں رسائی کو یقینی بنانے کیلئے قومی لیگل سروسز اتھارٹی (این اے ایل ایس اے) نے اینڈرائڈ اور آئی او ایس ورژن پر لیگل سروسز موبائل ایپ بھی شروع کیا ہے تاکہ معذور افراد سمیت عام شہریوں کو قانونی امداد تک آسان رسائی کو ممکن بنایاجاسکے۔مزید برآں حکومت نے معذور افراد کے حقوق سے متعلق ایکٹ آر پی ڈبلیو ڈی (ایکٹ) 2016 بھی بنایا ہے جس کانفاذ 19 اپریل 2017 سے شروع ہوگیا۔ یہ ایکٹ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں میں پی ڈبلیو ڈی کے لئے ریزرویشن فراہم کرتا ہے، ان کے لئے قابل رسائی فیچر قائم کرتا ہے، معذوری سے متعلق مرکزی اور ریاستی مشاورتی بورڈ کے ذریعے فیصلہ سازی کے عمل میں پی ڈبلیو ڈیز کی شراکت داری، شمولیاتی تعلیم وغیرہ فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 12 خاص طور سے انصاف تک رسائی کو یقینی بناتا ہے جو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ حکومت کوگواہیاں درج کرنے، معذور افراد کے ذریعے اپنی زبان میں دی گئی دلیل یارائے اور رابطے کے ذرائع کا حق فراہم کرتا ہے۔اپریل 2018 سے جنوری 2022 کے دوران لیگل سروسز اتھارٹی ایکٹ 1987 کے تحت 29050 معذور افراد کو قانونی خدمات فراہم کی گئی تھی لیکن وہ آج زمینی سطح پرکہیں نظرنہیں آ رہی ہیں۔
جموں کشمیر کا ضلع پونچھ معذوروں کی ایک مثال بن چکا ہے۔ ضلع پونچھ کے جس بھی گاؤں میں آپ رخ کریں گے تو آپکو تقریباً ہر گاؤں میں دس بیس معذور افراد مل جائیں گے جو کئی طرح کی اذیتیں برداشت کرتے نظر آ جائیں گے۔ آج میں آپکو ضلع پونچھ کی تحصیل حویلی کے گاؤں نیرڑھیاں وارڈ نمبر تین (ھاڑی بڈھا) کی سیر کرواتی ہوں۔اس گاؤں کی رہنے والی گلناز اختر کی عمر اٹھارہ سال ہے۔ گلناز دونوں ٹانگوں سے معذور ہے۔ گلناز سے جب میں نے بات چیت کی تو اس نے بتایا ’’میںبچپن سے معذور ہوں۔ میں ابھی نو مہینے کی تھی تو میری ماں نے مجھے چار پائی پر لٹایا ہوا تھا تو میں اچانک وہاں سے گر پڑی جسکے بعد میری دونوں ٹانگیں فریکچر ہو گئی تھی۔علاج نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ٹانگیں سیدھی نہیں ہو پائی اور آپ صاف طور پر میری حالت دیکھ سکتے ہیں کہ میری ٹانگیں کتنی کمزور ہیں۔ ان میں بالکل بھی جان نہیں ہے۔ اب میری عمر بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میری تکلیف بھی بڑھ رہی ہے‘‘۔ گلناز کہتی ہے کہ’’ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پر خود چل کر نہیں جا سکتی۔ مجھے جب بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے تو میرے گھر کے افراد مجھے کاندوں پر اٹھا کے ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر رکھتے ہیں اور اگر مجبوراً خود چلنا بھی پڑے تو میں اپنے ہاتھوں میں چپل پہن کر چلتی ہوں۔ لوگ پاؤں میں چپل پہن کر چلتے ہیں میں ہاتھوں میں چپل پہن کر پاؤں کے بجائے ہاتھوں کے سہارے چلتی ہوں۔اس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ٹانگیں گھسیٹنی ہوتی ہے جس سے ٹانگوں اور ہاتھوں میں زخموں کی قطار لگ جاتی ہے۔ جس کے باعث مجھے اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مجھے اپنی روزانہ کی زندگی کا کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مجھے کیا کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے؟ کیسے رہنا ہے؟ میری ماں ہی میرا سب کام کرتی ہے۔ تولیدی صحت کے دوران بھی میری ماں ہی مجھے سنبھالتی ہے۔ کبھی کبھار جب میں اکیلی ہوتی ہوں تو مجھے بہت رونا آتا ہے کہ کاش میں بھی باقیوں جیسی ہوتی تو خوشی خوشی زندگی گزارتی، تعلیم حاصل کرتی، رشتے داروں کے گھر جاتی۔ لیکن افسوس کہ میں ان تمام تر چیزوں سے محروم ہوں۔ مجھے تصویر میں آپ صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ میری ٹانگوں کی کیا حالت ہے؟ مجھے ٹانگوں میں بہت درد ہوتا ہے کیونکہ میری ٹانگیں بہت لمبی بھی ہیں اور کمزور بھی۔ میری ٹانگوں میں بالکل جان نہیں ہے۔ مالی حالات بھی بہتر نہیں ہیں کہ میرے گھر والے میرا علاج و معالجہ کروائیں۔میری عمراٹھارہ برس بھی ہوگئی ہے۔لیکن آج تک میں نے کسی بھی ہسپتال کا منہ تک نہیں دیکھا۔جب کبھی گاؤں میں میڈیکل کیمپ لگ جائے تو ہمارے کانوں تک خبر نہیں ہوتی کیونکہ ہم غریب ہیں۔ ہمیں کسی بھی قسم کی اطلاع نہیں دی جاتی۔ میں معاشرے اور انتظامہ سے سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا میں غریب اور معذور ہوں، اس لیے مجھے ہر طرح کے حق سے محروم رکھا گیا ہے؟آخر ایسا کیوں ہے؟ آخر میرے ساتھ نہ انصافی کیوں؟ کب تک میں یہ اذیت برداشت کروں؟‘‘۔
ایک درد بھری کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے گلناز کی مامی کہتی ہیں ’’ آنکھوں سے آنسو ٹپکتے لگتے ہیں جب میں اپنی بھانجی گلناز کو دیکھتی ہوںکیونکہ یہ کئی سال سے معذوری کی تکلیف کا سامنا کر رہی ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا حکومت کے پاس اسکے لیے بہتر وسائل نہیں ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندوستان کے خزانوں میں کمی آ گئی ہو؟ ویسے تو بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں کہ معذوروں کو فلاں سکیم کے تحت سہولت ملے گی؟ لیکن ایسا کبھی نہیں دیکھنے کو ملا جس سے معذور افراد کو کچھ فائدہ حاصل ہوا ہو۔کسی معذور لڑکی یا لڑکے کو اسکا بھر پور حق ملا ہو۔ افسوس کہ ان مسکین غریب لوگوں کے ساتھ جیتے جی نا انصافی ہو رہی ہے۔ کوئی کیا جانے کسی کا دکھ درد؟ معذور افراد کے مسائل و مشکلات وہ خود یا ان کے لواحقین ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔جس خاندان میں خدا نخواستہ ایک بچہ بھی معذور ہو تو وہ پورا خاندان اس سپیشل بچے کی پرورش، دیکھ بھال، حفاظت اور علاج معالجے میں مصروف رہتا ہے۔سپیشل بچوں کے والدین کی زندگی کافی کٹھن ہو جاتی ہے۔ خصوصاً غریب افراد کے لئے خصوصی بچوں کی پرورش، ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے ساتھ تعلیم و تربیت کا اہتمام کافی مشکل اور صبر آزما کام بن جاتا ہے۔ گلناز نے تو بالکل بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ آج کل معذوروں کے لئے کئی طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس بچی کے لئے کوئی بھی سہولت آج تک میسر نہیں ہوئی۔ بالا آخر میں اس بچی کی امداد کے لئے کافی سال سے بے صبری سے انتظار میں ہوں کہ کاش اسکے لئے کوئی سہولت مل جاتی تو اسکے ماں باپ کو اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ مجھے امید ہے کہ گلناز کے لئے وہیل چیئر اور باقی تمام تر سہولت کا اقدام کیا جائے تا کہ اس کے گھر والوں کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔
اس سلسلے میں گاؤں کے سرپنچ عبدل رشید چیچی کا کہنا ہے کہ’’میں نے کئی جگہوں پر معذوروں کے ساتھ نا انصافی ہوتے دیکھی ہے۔ جہاں تک ہمارا کام ہے تو ہم انکو ہر طرح کے حقوق دلانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ چائے پینشن ہو، راشن کی کمی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مجھے دْکھ اور افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ ہمارے اس علاقے میں غریب لوگوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔ میں اگر اس بچی کی بات کروں تو کئی بار میں نے اسکی آواز اٹھائی۔ لیکن اسکے ساتھ سرا سر نا انصافی ہوتی رہی بلکہ اس علاقے کے تمام معذور افراد کو اُنکے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ عورت ذات ہے اگر یہ تمام عمر ایسے حالات میں رہے گی تو اسکے ساتھ کئی طرح کی بری حرکتیں ہو سکتی ہیں۔ جسکا اثر باقی نوجوان نسل پر پڑے گا۔ میں اس بچی کے حق کیلئے خود بھی لڑ رہا ہوں لیکن اسکو آج تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ میری ضلع پونچھ کے تمام افسران سے پر زور اپیل ہے کہ فوری طور پر اس بچی کیلئے مفت علاج، وہیل چیئر اورباقی ضروریات زندگی کا اہتمام کیا جائے‘‘۔اس اسی سلسلے میں گلناز کے والد محمد قاسم عمر48 سال، والدہ نسیم اختر عمر43 کا کہنا ہے کہ ’’ جب یہ نو مہینے کی تھی تو یہ چار پائی سے گری تھی۔ اسی وقت اسکی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھی اور آج تک یہ ایسے ہی معذوری کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں بھی بہت سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے پاس ایک عام ویل چیئر بھی نہیں ہے کہ ہم اسکو وہیل چیئر پر بٹھا کر باتھرْوم تک یا باورچی خانے تک لے جائیں۔ جب گلناز نے ہوش سنبھالا تھا تو پہلی مرتبہ اسے اپنی جسمانی محرومیوں کا احساس اس وقت ہوا جب یہ خود سے چل بھی نہیں سکتی تھی۔ ہم اگر کسی کام میں مشغول ہوتے ہیں تو اسے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی دوسرا انھیں اٹھا کر دوسری جگہ لے کر جائے۔کبھی کبھار جب ہم اس کی خدمات انجام نہیں دے سکتے تو یہ خود ہاتھوں میں چپل لگا کر ادھر اْدھر گھسیٹتے ہوئے چلتی ہے کیونکہ اسکے پاؤں اور ٹانگیں بالکل ٹیڑھی ہیں‘‘۔
گلناز کواپنی سہیلیوں کو سکول آتے جاتے دیکھ کر محرومی کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔دوسرے بچے اپنے پیروں پر چلتے ہیں اور اسے ہم سہارا دیتے ہیں۔گلناز کی ماں کا کہنا ہے کہ اسکو تولیدی صحت کے دوران بھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ اچھے طریقے سے اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتی ہے۔ میں تولیدی صحت کے دوران اسکا خیال خود رکھتی ہوں، نہاتی دھوتی بھی ہوں۔ ہماری موجودہ حکومت سے یہی اپیل ہے کہ ہمیں اپنی بیٹی کے لئے اس وقت وہیل چیئر اور مفت علاج کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پیدائشی معذور نہیں ہے اسکا علاج ہو سکتا ہے۔ اگر اعلیٰ حکومت کی طرف سے یا سوشل ویلفیئر دفتر پونچھ کی طرف سے کچھ مدد کی جائے تب ہی جا کر ہماری بیٹی کا علاج ہو سکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ کب تک ہم اسکی خدمات انجام دیتے رہے گے؟جب ہم اسکی آنکھوں سے اوجل ہو جائیں گی تو اسکی پرورش کون کرے گا؟ اس لیے ہمیں اپنی بیٹی کے علاج کے لئے مدد دی جائے۔
گاؤں کے کچھ مقامی لوگوں نے بھی اس معذور لڑکی کے بارے میں کہا کہ یہ سخت سے سخت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ ہاتھوں کے سہارے چل چل کر اسکے دماغ پر بھی بہت گہرااثر پڑا ہے۔ یہ تکلیف کے بہت بڑے مرحلے سے گزر رہی ہے اسکے لئے ایسی زندگی جینا سزا بن چکی ہے۔نہ جانے اسے یہ سزا کب تک ملتی رہے گی؟ کب محکمہ سوشل ویلفیئر کی نیند ٹوٹے گی اور گلناز کو اس کا حق ملے گا؟ (چرخہ فیچرس)