یہ ایک حقیقت ہے کہ سر زمین پیر پنچال قدرتی خوبصورتی کی بے مثال شاہ کار ہے ۔ اس خطہ کے سرسبزو شاداب وادیاں بلندو بالا پہاڑ وسیع و عریض صحرا اور ان کے دامن میں بہتے خوبصورت گنگناتی ندیاں اور نالے جہاں اس خطہ کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں ، وہیںیہ سرزمین مردم خیزی میں بھی کسی طرح پیچھے نہیں ۔یہاں کئی نامور علماء صلحاء دانشور وادیب اور رہبران قوم کی شکل میں متاثر کن شخصیات پیدا ہوئیں جو بہ حیثیت داعیانِ دین قائد ملت اور رہبرانِ قوم اپنی مثال آپ تھےاوراپنے اوصاف حمیدہ کے اجالوں سے مختلف شعبہ ہاے زندگی کو روشن کرتی رہیں ۔ انہیں مبارک شخصیات میں سے ایک تاریخی ہستی چودھری ولی محمدنمبردار تھے۔ انہوں نے منڈی کے گاؤں بائیلہ کے ایک نامی گرامی خاندان میں جنم لیا،ان کے والد گرامی مقدم چودھری راجولی تھے ، قریب 85 سال کی عمر پائی ۔ جس دور میں انہوں نے آنکھیں کھولیں وہ دور ناخواندگی کی تاریکیوں سے گھرا ہوا تھا ۔ ہزاروں میں کہیں کوئی ایک معمولی پڑھا لکھا ملتا ۔ اس دور میں انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ ہائیرسیکنڈری سکول منڈی سے کیا جو اس زمانے میں علاقےکا سب سے پہلا سکول تھا۔انہوں نے صرف پانچویں تک کی تعلیم حاصل کی ۔ بچپن ہی سے چونکہ بہت ذہین تھے ،اس لئے انہوں نے پانچویں تک پڑھنے کے باوجوداردو زبان میں مہارت حاصل کرلی ، ریاضی میںبھی اچھی خاصی صلاحیت تھی۔ خداداد ذہانت کے سبب ان سےپرائیمری تا ہائر جماعتوں کے طلبہ دور دور سے اردو اورحساب سیکھنے آتے، ان ہر دو مضامین میں موصوف کی مہارت اپنی مثال آپ تھی ۔ چودھری ولی محمد کو اپنی ذہانت اور منصف مزاجی کی وجہ سے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں نمبرداری کا عہدہ ملا ۔انہوں نے اپنے فرائض کو بحسن خوبی نبھایا اور بلالحاظ مذہب وملت، مسلک و مشرب لوگوں کے باہم دگر تنازعات و معاملات کو نہایت تدبر اور خوش اسلوبی سے حل کیا کرتے ، گویا آپ ایک چلتی پھرتی عدالت تھے ۔ مرحوم کی زندگی ، اہلیت اور خدمات سے متعلق ان کے اپنوں اور غیروں کا اعتراف ہے کہ قبلہ بابا جی دینی مزاج ،سیاسی سوچ اور سماجی خدمات کا بھر پور جذبہ رکھتے تھے – یہی وجہ ہے کہ اس خانوادے کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا اور آج بھی مرحوم کو ضلع پونچھ کے ہرگاؤںاور محلہ برداریوں میںغمگسارِ قوم کے طور پر جانا اور پہچاناجاتاہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مرحوم رات کی تاریکیوں میں شب بیدار ی اور تہجدگزار ی کر تے۔ ان کی ہمہ جہت وجاہت کا ہی یہ پرتو تھا کہ مرحوم کچہری میں منصف ، انتظامیہ کی نظر میں بااعتبار ،عوامی حلقوں میں عقلِ سلیم اورخُلق عظیم والا شہری ،علماء وصلحاء کے یہاں نیکوکار اور اپنے اور پرائے کا یکساں غمخوار مانے جاتے ۔اخوت و بھائی چارہ گی اور صلہ رحمی مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کی وسعت قلبی کی عکاسی اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ تحصیل منڈی کے گاؤں سیکلو کا رہائشی ایک ہندواپنی غریبی کا دکھڑا لے کر مرحوم ولی محمد کے گھر ایک دن آیا تو اس کی درد بھری داستان سن کر قبلہ بابا جی نے اس شخص کو بغیر کسی سوال جواب کے تعمیراتی سامان گھر بھجواکر اس غریب نے اپنی جھونپڑی تعمیر کرائی ۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات مرحوم کی زندگی کی ہمدردی اور غریب پروری کی گواہی دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات گواہی دیتے ہیں کہ وہ عملی مسلمان اور جنتی شخص تھے۔ ہر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار تھے اور ہر ایک کو اس کے مراتب کے مطابق عزت ومنزلت دیتے – ایسا لگتا تھا کہ. انزالناس منازلھم. کے عمل کی تفسیر تھے – ان کسے متعلق ایک اور واقعہ مرحوم مفتی سعید احمد نقشبندی کے فرزند ڈاکٹر شبیر احمد کے حوالے سے نقل کررہاہوں ۔ وہ کتے ہیں کہ مرحوم سعید احمد صاحب مرکزی جامع مسجد منڈی کے امام و خطیب تھے اورقبلہ باباجی مسجد کمیٹی کے صدر تھے ۔ ایک مرتبہ مفتی صاحب بیمار ہوگئے اور بہت زیادہ کمزور ہوئے ۔ علاج ومعالجہ کے بعد مفتی صاحب کی صحت روز افزوں بہتر ہو گئی ۔ ایک روز حکیم صاحب نے محترم باباجی کو مذاق میں کہہ ڈالا کہ علاج کرنا میرا کام تھا میں نے مفتی صاحب کا علاج کردیا لیکن اپ بھی تو مفتی صاحب سے زیادہ اُنسیت رکھتے ہیں ، آپ بھی کچھ کیجیے -ا حکیم صاحب نے مرحوم ولی محمد سے کہاکہ مریض کے لئے درمیانہ عمر کے چوزے کا شوربہ بہت مفید ہے ، مرحوم بابا جی نے ان کا فوراً انتظام کروا دیا اور حکیم صاحب کو پیش کر کےعاجزانہ انداز میں کہااگر میرے چھوٹے سے عمل سے ایک عالم دین صیحت مند ہوجاے تو یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے ۔ مطلب یہ کہ اس سادہ منش کا مزاج ہی یہ تھا کہ کسی طرح دوسروں کے کام آؤں اور دکھ درد بانٹوں ۔ کیا خوب کسی نے کہا ؎
خوب ہے اوروں کی خاطر گرگزاری زندگی
یہ ہنر آیا جسے اس نے سنواری زندگی
قبلہ باباجی کا ہر ہر عمل ایسا تھا جس میں غریبوں بے کسوں اور دین دکھیوں کے تیں محبت و مروّت کی جھلکتی تھی – گویاآپ محبت کے چشمہ زُ لال تھے، کیوں نہ ہوتے، حقیقت یہی ہے ؎
محبت سے ہی پائی ہے شفاء بیمار قوموں نے
کیاہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
اُف! کہاں گئی وہ محبت ،کہا ں گیا وہ خلوص ،کہاںگم ہوا وہ بھائی چارہ، کہاں سوگئے انسانیت کا درد رکھنے والے وہ بہی خواہان ِ قوم!!! مجھے آج بھی صحیح طور یاد ہے جب بھی کوئی مبارک دن یارات آتی یاعیدین کے مبارک مواقع ہوتے تومرحوم قبلہ باباجی بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے اقرباء ومتعلقین کے ساتھ ساتھ کئی علاقہ جات کے دوست احباب کو اپنے گھر مدعو کیا کرتے تھے اور کسی کے دعوت پر نہ آنے پر سخت ناگواری کا اظہار کر نے سے نہیں چوکتے ۔ اپنی زندگی میں اپنے اولاد کو بھی اوصافِ شریفانہ ،منصف مزاجی ،اخلاق و کردار، سخاوت و ہمدردی، غمگساری وغریب پروری جیسے اوصاف کی تلقین کیاکرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نمبردار چودھری ولی محمد بائیلوی کو آج قریب 30 سال انتقال کے بعد بھی اپنی نیک نیتی، اصول پرستی ،محبت والفت ،منصف مزاجی ، ادب واحترام، ہمدردی وغمگساری کے اوصاف نے زندہ تابندہ رکھا ہو اہے ۔ بقول شاعر ؎
ہوکے رخصت بھی وہ میرے ساتھ رہتاہے
خود کو لے جانہ سکا چھوڑ کرجانے والا
انہوں نے جب اس دار ِفانی سے دار ِابدی کی طرف تیاری بھی عجیب تھی کہ نماز فجر سے قبل روح پرواز کرنے کے قریب تھی کہ اذان فجر ہوتی ہے جس کی آواز تمام جملہ احباب اور مجمع کے ساتھ ساتھ قبلہ بابا جی نے بھی سن لی اور تمام لوگوں کو کہا کہ نماز فجر باجماعت ادا کرو ۔ یہ کہناتھا کہ وقت نزع آن پہنچاسب نے سورۃ یٰسین پڑھناشروع کردی، سب کے ساتھ قبلہ باباجی بھی پڑھتے پڑھتے اللہ کو پیارے ہوگئے ۔