مسلمانوں کے مذہبی اداروں اور جائداد واملاک کی دیکھ ریکھ کے لئے مرکزی اور ریاستی سطح پر مسلم اوقاف بورڈوں قائم ہیں ۔ ان کا بنیادی مقصدمسلم آبادی کی وقف جائداد ، درگاہوں، مساجد ، مکاتِب و مدارس ، قبرستانوںکی حفاظت اور دیگر مذہبی امور کی انجام دہی اور آمدن و اخراجات کا حساب کتاب ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں محکمہ اوقاف اپنے ان فرائضِ منصبی میںکِس حد تک کامیاب رہاہے ،وہ محکمہ کے اعلیٰ حکام ہی جانیں تاہم پونچھ کے محکمہ اوقاف کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ ضلع پونچھ میں اوقاف اکثر اوقات ایسے ایڈمنسٹریٹروںیا چیئر مینوںکے ہاتھوں میں رہا جنہوں نے نہ صِرف اس جائدادکو دونوں ہاتھوں سے لُوٹا بلکہ اسے کوڑیوں کے دام بیچ کھایا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ آج سے چھتیس سال قبل لیز پر دئے گئے جن رہائشی پلاٹوں کا سالانہ کرایہ ایک سو روپے مقرر کیا گیا تھا ،وہ آج تک جوں کا توں قائم ہے اور کرایہ داروں میں سے بھی اسّی فی صد افراد کرایہ جمع ہی نہیں کرواتے۔ رہائش کی بابت لیز پر الاٹ ان پلاٹس کو متعدد افراد نے دوکانات میں تبدیل کر دیاہے جب کہ کرایہ وہی سو روپے سالانہ ہے۔ غور طلب ہے کہ جن افراد کے نام ساڑھے تین دہائیاں قبل اوقاف نے یہ جائداد محض چھ سو روپے سیکورٹی فیس کے عوض لیز پر دی تھی اُنہوں نے اسے دوسرے اشخاص کو لاکھوں روپے کے عوض میں سب لیٹ(ٹرانسفر) کردیا ۔ ان تبادلوں کا پونچھ اوقاف کا کوئی مالی فائدہ نہ ہوا لیکن ایساکر نے والے افراد راتوں رات لکھ پتی ضرور بن گئے اور یہ سارا کاروبار پونچھ اوقاف کے عملہ کی ناک کے نیچے ہوتا رہا اور اس میں دفتر ہذا کے کُچھ مُلازمین کے علاوہ سابق سیکریٹریز اور چیئر مینز بھی شامل رہے ہیں۔ اس ضمن میں عوام کا کہنا ہے کہ تحصیل حویلی کے نکاح خوانوں کو اجراء کئے گئے نکاح رجسٹرز کی دفتر ہذا میں کوئی تفصیل موجود نہ ہے بلکہ الزام یہ لگایا جارہاہے کہ کئی افرادنے خود اوقاف پونچھ کے نام سے رجسٹر چھپوا رکھے ہیں اور اُس سے اوقاف کو ہونے والی آمدن بھی اپنے جیبوں میں ڈال رہے ہیںاور اس کا دفتری عملہ کو بھی بخوبی علم ہے۔ اس بد نظمی سے آئے روز دیہاتوں میں جعلی نکاح درج کر کے محکمہ لیبر سے بچیوں کی شادی کے نام پر لاکھوں روپیہ نکلوایا جا رہا ہے جس میں محکمہ لیبر پونچھ اور اوقاف پونچھ کا عملہ برابر کے شریک ہیں اور اوقاف سے اس نکاح کی تصدیق معہ مہر کلرک مذکور ہی کرتا تھا۔ دفتر میں کام کر رہے عملہ ہزاروں روپے بطور قرض( پیشگی تنخواہ) حاصل کر چکے ہیں جب کہ اوقاف قوانین میں قرض یا پیشگی تنخواہ ادا کرنے کا کوئی ضابطہ ہی موجود نہیں ہے۔ دفتر اوقاف پونچھ کے ملازمین انہی گپھلہ بازیوں کی وجہ سے خود کو تیس مارخان سمجھتے ہیں جب کہ ان سے ساز باز کر کے کچھ افراد غیر قانونی تعمیرات اور رقبہ اوقاف پرناجائز تجاوزات کی اجازت دے کر گویا’’ مال غنیمت ‘‘کو خود پر حلال کیا گیا ہے۔ اوقاف پونچھ کی ایسی کارکردگیوں کے باعث مسلم آبادی میں اس کی اہمیت و افادیت روز بروز داغدار ہوتی چلی گئی کہ آج حالت یہ ہے کوئی نیک سیرت یا دیانتدار ایڈمنسٹریٹر اگر اس میں سدھار کی بات بھی کرتا ہے توکامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔ 1985 ء کی اوقاف نوٹیفیکیشن میں شامل کی گئی اوقاف اراضی کو محکمہ مال نے بھی اپنے ریکارڈ میں اندراج نہ کیا کیوں کہ ادارے کے عملہ نے ناجائز قابضین سے چائے پانی وصول کر کے اس زمین کو اُن کے لئے حلال کیا ہے اور یوں اُنہوں نے محکمہ مال کے ملازمین کی دال روٹی کا بھی بندو بست کر دیا ہے۔ چنانچہ پٹواری یا گرداور حضرات محکمہ مال کے اعلیٰ آفیسران کی نشاندہی کے احکامات کو خاطر میں نہ لاکر اُس پر تا دمِ تحریر کوئی عمل کر نے سے گریزاں ہیں، اس لئے ابھی تک کئی نمبرات ریونیو ریکارڈ میں شامل نہیں کئے گئے ہیں۔ اوقاف پونچھ کی اسی سست روی کے باعث قومِ اسے عضوئے معطل سمجھ کر ہر مسجد یا قبرستان کے اہل محلّہ نے گھر گھر راج کے مترادف مطلق العنان انتظامیہ کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی مرضی کے بغیر وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔اس کی ایک مثال مسر قبرستان کمیٹی ہے جہاں چند ماہ قبل دیہات سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی والدہ کی میّت کو کمیٹی کے ایک نابالغ لڑکے نے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا جس کے بعد اُنہیں میّت کو اپنے آبائی گائوںلے جانا پڑا۔ اسی طرح سید غفور بادشاہ قبرستان کے بائیں حصہ کو ایک خانوادے نے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے اور اس وقف قبرستان میں وہ اپنے خانوادے کے سوا کسی دوسرے کی میّت کو دفن ہی نہیں کرنے دیتے ۔ ان خود ساختہ کمیٹیوں میں سے اکثر ارکان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے سے ہے جو اس خرابی کی بنیادی وجہ ہے۔ یہی حال مساجد کمیٹیوںکا ہے ہیں جن کی کوئی عوامی حیثیت نہیں ۔ یہ اپنے خود ساختہ اصول و ضوابط کے تحت کام کر رہی ہیں اور میں علماء یا ائمہ کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔ پونچھ عیدگاہ کمیٹی ہے جسے سیاسی پشت پناہ حاصل ہے ، یہ بھی کوئی قبال ذکر کام کرنے سے قاصر ہے۔ شہر کی پُرانی مسجدمیاں نظام الدین کی سابقہ اور موجودہ انتظامیہ کمیٹیاں بھی آج تک قوم کے سامنے کوئی باقاعدہ حساب و کتاب نہیںرکھ پائیں ، اسلامیہ اسکول کی انتظامیہ کمیٹی بھی پچھلے دس سالوں سے اپنی آمدن و خرچہ کا کوئی گوشوارہ شائع نہ کر سکی ۔ایسا ہی حال شہر کے دینی ادارے جامعہ انوار العلوم کا ہے ۔ مُسلمانانِ پونچھ ہی نہیں بلکہ ادارہ کے اساتذہ اور طلباء کے لئے یہ صورت حال سوہانِ روح بنی ہوئی ہے ۔سائی بابا ٹرسٹ کی آڈٹ رپورٹ اب ُکمل طور پرتیار ہے لیکن اسے منظر عام پر لانے میں نہ جانے لوگ کیوں ہچکچا رہے ہیں جب کہ یہ حضرات تعمیرات ، ملازمین کی تقرری اور اُن کی تنخواہوں میں اضافے جیسے فیصلے لیتے وقت ہرگز نہیں ہچکچاتے ۔ضلع میں موجود قومِ مسلم کے دیگر کئی مدارس ا ور اسکول جو مسلم عوام کے چندہ و زکوٰۃ سے تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے ہیں لیکن اان پر بھی اوقاف کو کوئی دسترس حاصل نہیںہے ۔ مسلم عوام کے چندہ سے تعمیر کی گئی یہ تمام جائداد وقف کے زمرے میں آتی ہے اور اس کا حساب کتاب یامنافع اوقاف کو ہی حاصل ہونا چاہیے نہ کہ کسی فردِ واحد کو ۔ اگر اوقاف نے ایسے معاملات پر نظر رکھی ہوتی تو آج’ ’جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس‘ ‘والا معاملہ نہ بنا ہوتا اور یہ لوگ اوقاف کے آگے جواب دہ بھی ہوتے۔
تجارتی نقطہ نگاہ سے جامع مسجد بازارپونچھ میں واقع اوقاف کی د وکانیں، سنڈی گیٹ زیارت کے عقب میں واقع دو منزلہ د وکانیںپریڈ گرائونڈ پونچھ ، گندی کسی اور اعلیٰ پیر محلّہ میں تجارتی مقاصد کے لئے الاٹ کی گئی اراضی جن پر د وکانیں تعمیر کی گئی ہیں اور وہاں سے وہ افراد لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں لیکن اوقاف کے ہاتھ میں محض مایوسی اور خالی پن کے کچھ نہیں ہے ۔ پرانے پونچھ قبرستان کے قرب میں تعمیر کی گئی د وکانیں ایک شخص کے قبضہ میں ہے جسے اوقاف حکام کا نہ ہی کوئی ڈر ہے اور نہ ہی وہ اوقاف کا کوئی حکم ماننے کو تیار ہے اور اس مسئلے پر دفتر اوقاف پونچھ بے بس نظر آتا ہے۔ اسی طرح اس قبرستان کا رقبہ، سنڈی گیٹ والی اوقاف کی دوکانوں کے عقب میں واقع زیارت کے قریب رہائشی پلاٹ اور پریڈ گرائونڈ میں تعمیر شدہ دوکان چند غیر مسلم افراد کو سب لیٹ کی گئی ہیں جو اوقاف قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ایسے ہی جامع مسجد مارکیٹ کی2000ء میں تعمیر کی گئی دوکانوں کا کرایہ صرف سینکڑوں روپے میں طے کیا گیا تھا، جو ابھی تک جوں کا توں چل رہا ہے ۔ ضلع ہسپتال پونچھ اور سی۔آئی۔ڈی آفس کے قریب موجود اوقاف اراضی کو ناجائز قابضین کے چنگل سے آزاد نہیں کرایا گیا ہے ۔ ایسے ہی اعلیٰ پیر محلّہ میں موجود اوقاف اراضی جسے کئی سالوں پہلے بطور جناز گاہ بھی استعمال کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سید غفور بادشاہ قبرستان سے ملحقہ اراضی جس پر ایک غیر مسلم شخص کا ناجائز قبضہ تھا اور جس کا فیصلہ ہائی کورٹ سے اوقاف کے حق میں ہوا ہے، کو بھی سابق اربابِ اقتدار ان نے کسی اور کے نام پر الاٹ کروارکھاہے، حالانکہ اس پرکمیونٹی ہال تعمیر کئے جانے کا منصوبہ بھی تھا۔
دیہاتوں میں تو اوقاف پونچھ کی حالت اور بھی خستہ ہے جہاں کی کافی اراضی پر مسلم و غیر مسلم افراد، فوج اور سرکاری ا داروں کا ناجائز قبضہ ہے ،جس کی چند مثالیں موضع ڈینگلہ، چنڈک، جُھلاس، دیگوار، کھڑی اور دیگر کئی علاقوں میںدیکھی جاسکتی ہیں۔ جائیدادِ اوقاف کی بے دریغ لُوٹ سے مسلم کمیونٹی کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ ا س کے پاس نہ کوئی ایسا کمیونٹی ہال، نہ تعلیمی ، تکنیکی ، طبی اور نہ ہی کوئی تربیتی ادارہ موجود ہے، جو کمیونٹی کے حال کو تابناک اور اس کے مستقبل کو روشن کرنے کی دلیل بن سکتا ۔ کاش ! اوقاف پونچھ کو ماضی میںکوئی بے لوث اور مخلص سربرا ہ مل جاتا جو جائدادِ اوقاف کے تعلق سے پونچھ کی بگڑی تقدیر بھی سنوار سکتا۔
سیاسی قائدین کے حضور ایک شکایت یہ کہ جب یہ افراد حزبِ اختلاف میں شامل ہوتے ہیں تب حکمران طبقہ کی منفی کارکردگیوں پر بڑا واویلا مچاتے ہیں اور جو جائز بھی ہوتا ہے لیکن جوں ہی ہر حزبِ اختلاف اقتدار میں آتا ہے تو یکایک اُسے سانپ کیوں سُونگھ جاتا ہے؟ 2011 ء کے جموں اسمبلی اجلاس کی کارروائی ابھی تک لوگوں کویاد ہے جب پی۔ڈی۔پی کے رُکن اسمبلی چوہدری ذوالفقار علی نے کہا تھا کہ’’ وقف اراضی کو غیر قانونی طریقہ سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے غیر مسلم طبقہ میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ کئی قبرستانوں پر اسکول، پولیس اسٹیشن، بیت الخلاء وغیرہ تعمیر کئے جارہے ہیں۔ پھر اُنہوں نے اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک قوم کے وقار کا سوال ہے، کیوں کہ قبرستانوں میں ہمارے آبا ء و اجداد دفن ہیں اور ان قبرستانوں پر تعمیرات کرنا مسلمانوں کے جذبات اور عقیدہ سے کھلواڑ کرنا ہے۔اس پر اسپیکر محمد اکبر لون نے کہا تھا کہ اس کی تفصیلی رپورٹ تیار کر کے ایوان میں پیش کی جائے اور قصور واران کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے خطر ناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کاروائی کی تفصیلات اسمبلی ریکارڈ میں آج بھی موجود ہوں گی۔ اربابِ اقتدار بالخصوص عزت مآب منسٹر چوہدری ذوالفقار صاحب سے یہ سوال ہے کہ اب وہ جوش اور ولولہ کہاں چلاگیا؟کیوں اس طرف ابھی تک کوئی توجہ نہ دی گئی ہے ؟ آپ تو زبان کے دھنی ہیں اور مسائل کو اسمبلی میں اُبھارنے کے پیچ و خم سے برابر واقف ہیں بلکہ اس کے لئے شاید دو بار بیسٹ ممبر اسمبلی کی سند سے بھی نوازے جاچکے ہیں ۔ اگرچہ ذوالفقار صاحب کے پاس محکمہ امورِ صارفین کا قلمدان ہے ،تاہم وہ اپنی حکومت کے حج واوقاف منسٹر سید فاروق اندرابی کے سامنے یہ حساس معاملہ رکھ تو سکتے تھے لیکن اڑھائی سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی وہ ایسا نہ کر سکے۔ حویلی حلقہ انتخاب کے ایم۔ایل ۔اے صاحب یوں تو کافی سخن شناس اور سخن فہم ہیں اور عوامی مسائل کو اُبھارنے کے انداز پر سیاسی و سماجی دانشوران سے شاباشی بھی بٹور رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ اُن کی آواز بھی ’ نقار خانے میں طوطی کی آواز ‘‘ ثابت ہورہی ہے۔ شاید اسی لئے اُنہوں نے بھی اس مسئلہ کوٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے اور اس تعقل سے اُن کی طرف سے آج تک اسمبلی میں کوئی سوال تک نہ اُبھارا گیا ہے ۔چلئے اُمید کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے اب ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ محبوبہ مفتی صاحبہ سے اُمیدکرتے ہیںکہ وہ اس ضمن میں اپنے والد مرحوم کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے اُسی اٹل ارادے کے ساتھ محکمہ اوقاف کی عدم کارکردگی ، فرض ناشناسی ، اقربا نوازی، نا انصافی اور رشوت خوری کا قلع قمع کریں گی ۔ اُمیدہے کہ وزیر اعلیٰ ریاست بھر کی طرح پونچھ اوقاف کے سنگین ترین مسائل میں از خود مداخلت کر کے اُس کا مسلم طبقہ کے مفاد میں صحیح فیصلہ کروائیں گی۔ پونچھ کے مسلم طبقہ کو یقین کامل ہے کہ جس طرح محترمہ نے اپنے دورہ کشتواڑ میں مسلم قوم کو تعلیمی شعبہ میں بہبودی کی خاطر اوقاف سے پچاس لاکھ روپے واگزار کرائے ہیں ،اِسی طرح کا خوش کن اعلان ِپونچھ کے لئے بھی کریں گی۔امید یہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اوقاف پونچھ کے ضمن میں ہر صحیح اور تاریخ ساز فیصلہ لے کر مسلمانانِ پونچھ کے اس دیرینہ ملّی ادارے کی اورہالنگ کو ترجیحی بنیادوں پر کرائیں گی جس کی مسلمانانِ پونچھ ان سے توقع رکھتے ہیں ۔