سید کرامت حسین شعور جعفری
پونچھ ایک لفظ نہیں، ایک منظر ہے؛ ایک خاموش تاریخ ہے جو چیخ چیخ کر انسانیت کو یاد دلاتی ہے کہ اگر کوئی زمیں ابھی باقی ہے جس پر رنگ، مذہب، ذات، نسل کے سارے زخم دھو دئے گئے ہوں تو وہ یہی ہے۔ یہاں کی فضا صدیوں سے محبت بولتی ہے، اور یہاں کے دریا صرف پانی نہیں، تاریخ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑ محض چٹانیں نہیں، صبر و استقامت کی داستانیں ہیں، یہ سرزمین صرف گندم، دھان یا مکئی کی پیداوار سے نہیں پہچانی جاتی ہےبلکہ یہاں کے سینے میں تہذیب، قربانی، ایثار اور بین المذاہب احترام کا وہ نور ہے جو ہر دھماکے، ہر زخم، ہر سازش کے باوجود بجھا نہیں۔یہ وہ خطہ ہے جہاں مسجد کی اذان، مندر کی گھنٹی، گردوارے کی بانی اور چرچ کے گیت ایک ساتھ فضا میں گھلتے ہیں اور رب کی حمد بن جاتے ہیں۔ ہولی کی ہنسی، عید کی نیاز، بیساکھی کی بانٹ، کرسمس کی روشنی سب ایک ہی محلے، ایک ہی صحن، ایک ہی دل میں سما جاتے ہیں۔ یہاں مذہب نے دیوار نہیں کھینچی، دروازے کھولے ہیں۔ پونچھ کی روح وہ محبت ہے جو ہر قہقہے کو دعا اور ہر دعا کو امن بنا دیتی ہے۔یہاں کے مسلمان، ہندو، سکھ، اور عیسائی صدیوں سے ایک ہی چولہے کی روٹی کھاتے، ایک ہی کاندھے پر سر رکھ کر روتے، اور ایک ہی لفظ سے تسلی دیتے آئے ہیں۔بھائی! یہاں کی عبادت گاہیں صرف پوجا یا نماز کے لیے نہیں، مل بیٹھنے، دکھ سکھ بانٹنے، اور دل جوڑنے کے مقام رہی ہیں۔اور جب محرم آتا ہے… تو یہ سرزمین غمِ حسینؑ سے اور بھی روشن ہو جاتی ہے۔ یہ غم کسی ایک فرقے کا نہیں رہتا، ہر مظلوم دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ یہاں کے سکھ بزرگ کہتے ہیں ’’ساڈا وی حسینؑ نال رشتہ اے!‘‘ یہاں محرم کا علم صرف امام بارگاہ میں نہیں، گردوارے کے صحن میں بھی نصب ہوتا ہے۔ سبیلیں مندر کے دروازے پر بھی لگتی ہیں، اور نیاز مسجد میں بھی بانٹی جاتی ہے۔ یہاں کے ہندو بزرگ خاموشی سے کہتے ہیں’’جو سچ دے واسطے کھڑا ہووے، اوہ ساڈا وی رہبر اے!‘‘یہ اتحاد وقتی نعرہ نہیں، صدیوں کی تہذیب کا نچوڑ ہے۔
مگرپھر پہاڑوں کے پیچھے ایک طوفان اٹھا۔پہلگام کی وادی میں بے گناہ سیاحوں کا خون بہا، اور سرحدوں پر بارود کی بارش ہونے لگی۔ پونچھ کی پہاڑیاں، جن پر کبھی اذانیں گونجتی تھیں، خاموش ہو گئیں۔ بازار سنّاٹوں میں ڈوب گئے، سکولوں کے دروازے بند ہو گئے، اور ماؤں کے آنچل جو کبھی دعا و نیاز سے بھرے ہوتے تھے، اب آنسوؤں سے نم ہو گئے۔جھوٹا میڈیا اُترا، اپنے ساتھ نفرت کی سیاہی اور انتشار کا ایجنڈا لے کر۔مگرپونچھ نے جواب دیا۔ہر جھوٹ کا مقابلہ سچائی سے کیا۔ہر افواہ کو خاموش مسکراہٹ سے دفن کیا۔ہر نفرت انگیز جملے کے بدلے دعا دی۔یہاں کے لوگوں نے کہا’’ہم سب پونچھ والے ہیں، اور پونچھ صرف سرحد نہیں، یہ ایک دل ہےاور دل میں صرف محبت بستی ہے!‘‘۔یہاں کے مندروں میں آج بھی چراغ جلتے ہیں، مساجد میں اذان ہوتی ہے، گردواروں میں لنگر بٹتا ہے، اور گرجا گھروں کے دروازے اذان کی گونج پر بند نہیں ہوتے۔پونچھ وہ خطہ ہے جہاں نفرت کی ہر سازش ناکام ہو گئی، اور محبت کی ہر تحریک نے کامیابی کی سند پائی۔ یہ وہ مٹی ہے جس پر اگر ایک مذہب کا پرچم اٹھا تو چاروں مذہبوں کے دل دھڑکے۔ جہاں اگر ماتم ہوا تو ہر دھرم نے سر جھکایا۔ یہاں کوئی مذہب اکیلا نہیں، اور کوئی انسان تنہا نہیں۔اور آج جب سکول بند ہیں، بازار ویران، عبادت گاہیں ساکت ،ھر بھی یہاں کے دل زندہ ہیں، اور انہی دلوں کی دھڑکن سے کل پھر محبت کی فصل اگے گی۔ یہاں کے بچے پھر گلے ملیں گے، یہاں کی مائیں سب کے لیے سبیلیں لگائیں گی، اور بزرگ پھر کسی دیے کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ بلند کریں گے۔سب کے لیے، بغیر امتیاز کے۔جن در و دیواروں نے صدیوں نوحے سنے، آج وہ خود نوحہ خواں ہو گئے ہیں۔اور اس سارے کرب کے باوجود پونچھ کا انسان شکوہ نہیں کرتا۔وہ صبر کرتا ہے۔وہ کہتا ہے’’ہم نے امام حسینؑ کے غم میں صبر سیکھا ہے، ہم بارود کے جواب میں درود دیں گے، نفرت کے مقابلے میں نوحہ پڑھیں گے، اور زخموں کے ساتھ بھی محبت کی فضا باقی رکھیں گے‘‘۔
اے پونچھ!تو صرف ایک خطہ نہیں،تو صرف ایک ضلع نہیں،تو انسانیت کی سجدہ گاہ ہے—جہاں ہر مذہب اپنا عکس دیکھتا ہے،اور ہر دل تجھ سے دعا مانگتا ہے۔اے پروردگارِ زمین و آسمان!اے وہ ذات جس نے پہاڑوں کو وقار، دریاؤں کو روانی، اور دلوں کو محبت کی طاقت عطا ک،تو نے پونچھ کی سرزمین کو امن، اخوت، اور اخلاص کا گلزار بنایا،جہاں تیرے بندے رنگ، زبان، اور رسم کے اختلاف کے باوجود ایک ہی دل کی دھڑکن بن کر جی رہے ہیں۔اے رب!یہ وہ خطہ ہے جہاں اذان کے ساتھ آرتی، شبد کے ساتھ دعا، اور نیاز کے ساتھ پرشاد تقسیم ہوتا ہے،جہاں گلیوں میں تہوار بانٹے جاتے ہیں، نہ کہ فرقے۔جہاں دعائیں مذہب سے بلند ہو کر انسانیت کی زبان میں مانگی جاتی ہیں۔تو ان دلوں کو اسی طرح جُڑا رکھ،اس فضا کو اسی طرح مہکتا رکھ،اس زمین پر اسی طرح بہار باقی رکھ۔اے ربِّ عالمین!ان معصوم آنکھوں کو تعلیم دے، ان محنتی ہاتھوں کو روزی دے، ان دعاؤں کو قبولیت دے،اور اس زمیں کے ہر گھر میں سکون، ہر آنگن میں برکت، اور ہر دل میں محبت کو دوام عطا فرما۔اور ہر طرف وہی صدا ہو جو تیری رضا کی ترجمان ہو۔ہم سب کو وہ دل عطا فرما جو دوسروں کا درد سمجھے،وہ آنکھ دے جو حسن دیکھے، اور وہ زبان جو صرف خیر، محبت اور دعا بولے۔اے مالکِ کائنات!اس سرزمین کے زخموں پر مرہم رکھ۔اس کے بازاروں میں پھر سے رونق ہو، اس کے سکولوں میں علم کی صدا گونجے، اور اس کے در و دیوار پر پھر سے محبت کی بارات اترے۔یہ پونچھ، جو انسانیت کا حسین مرثیہ ہے، اسے نفرت کے موسموں سے محفوظ رکھناجس طرح تو نے پونچھ کو مختلف مذاہب کا گلشن بنایا،اسی طرح اسے ہمیشہ کے لیے سلامتی، رواداری اور انسان دوستی کا استعارہ بنا دے۔آمین یا رب العالمین
رابطہ۔9004586110