سرینگر//پولیس اور فورسز کی طرف سے20فیصد بشری حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایس پی وید نے کہا کہ80فیصد بشری حقوق کی پامالیاں سیول انتظامیہ اور دیگر جگہوں سے ہوتی ہیں۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کا راستہ ترک کرکے گھر آنے والے نوجوانوں کا خیر مقدم کیا جائے گا،جبکہ جنوبی کشمیر میں والدین کی آواز پر کئی نوجوان پہلے ہی گھر لوٹ آئیں۔ جھیل ڈل کے کنارے واقع’ایس کے آئی سی سی‘میں انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی طرف سے منعقدہ تقریب کے دوران ریاستی پولیس سربراہ نے کہا کہ وہ بار بار پولیس اہلکاروں کو کہتے ہیں،قانون ہاتھوں میں لینے والے بھی اپنے بچے ہیں،اور وہ ان سے انسانی طریقے سے پیش آئے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں پولیس کو جن چلینجوں اور صورتحال کا سامنا ہے،وہ شائد ہی کسی اور ریاست کی پولیس کو ہے،تاہم ریاستی پولیس ہر محاذ پر انسانی اقدار کا خیال رکھتی ہے۔ایس پی وید نے گزشتہ دنوں قاضی گنڈ آپریشن کے دوران ایک عسکریت پسند کو زندہ حراست میں لینے کی مثال دیتے ہوئے کہا’’ مذکورہ جنگجو نے فوج اور پولیس پر گولیاں چلائی تھی،اور وہ جوابی کارروائی میں زخمی ہوا تھا،اور صبح کو جب معلوم ہوا کہ وہ زخمی حالات میں گھر میں وجود ہے،تو پولیس نے انہیں زندہ گرفتار کر کے اسپتال پہنچایا‘‘۔وید نے کہا کہ یہ کارنامہ صرف جموں کشمیر پولیس ہی کرسکتی ہیں اور کوئی نہیں۔ انسانی حقوق کی پامالیوں میں زیرو ٹالرنس پر کار بند رہنے کا اعلان کرتے ہوئے ریاستی پولیس کے سربراہ نے کہا ’’جب تک ہمارے دل میں انسانی اقدار پیدا نہیں ہونگے،تب تک یہ کام مشکل ہیں‘‘،تاہم انہوں نے کہا کہ اہلکاروں کو تربیتی کورسوں کے دوران بھی حقوق انسانی کی پاسداری کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ3برسوں سے ریاستی پولیس کی حراست میں کوئی بھی ماروائے عدالت موت واقع نہ ہوئی،اور نہ ہی دوران حراست کسی کی عصمت ریزی یا کسی کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کوئی شکایت موصول ہوئی۔ پولیس کی طرف سے صرف20 فیصد بشری حقوق کی خلاف ورزی کا دعویٰ کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ سیول انتظامیہ یا دیگر دوسری جگہوں سے80فیصد بشری حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہیں۔ڈاکٹر وید نے کہا کہ گزشتہ برس سخت صورتحال کا سامنا تھا،تاہم صورتحال آہستہ آہستہ بہتر ہوئی،اور اس میں سب نے رول ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ پیلٹ بندوق کا استعمال یا تو بہت ہی کم کیا جاتا ہے،اور اس کو ختم ہونے کے دہانے پر لایا گیا۔انہوں نے کہا’’پولیس واضح کرنا چاہتی ہے کہ، وہ بے جا کسی کو تنگ نہیں کرتی،جبکہ تشدد کا راستہ چھور کر نوجوانوں کو واپس گھر کی راہ لینی چاہی،اور اپنا مستقبل سنوارنا چاہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ والدین بھی اپنے بچوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ یہ راستہ چھوڑ دیں،اور ان نوجوانوں کو چاہے کہ وہ اپنے والدین کی بات پر عمل کرنا چاہے۔ ریاستی پولیس کے سبراہ نے کہا کہ والدین کی آواز پھر جنوبی کشمیر میں پہلی ہی کئی نوجوانوں نے تشدد کے راستے کو ترک کر کے گھر کی راہ لی۔اس موقعہ پر انہوں نے منشیات کے خلاف پہلے ہی جنگ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ لت آہستہ آہستہ ہماری نئی پود کو ختم کر رہی ہیں،جبکہ پولیس افسران اور اہلکاروں کو ہدایت دی ہے کہ منشیات کے سوداگروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔