پوش کالونیوں کے سماجی و معاشرتی مسائل

Towseef
10 Min Read

غور طلب

محمد امین اللہ

زمانہ قدیم سے آبادیاں طبقاتی اعتبار سے قائم ہوتی رہی ہیں لیکن ان آبادیوں کے درمیان اتنی زیادہ سماجی اور معاشرتی تنوع نہیں تھا جو آج کے شہری ، دیہی اور دیہاتی آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کے مسائل اور پریشانیوں سے واقفیت بھی رکھتے تھے اور اس کے حل میں معاون و مددگار بھی ہوتے تھے ۔ان آبادیوں کی تشکیل یا قیام مالی، علمی ، سرکاری ملازمتوں ، تجارتی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر ہوتے تھے اور آج بھی کم و بیش انہیں بنیادوں پر آبادیاں قائم ہو رہی ہیں ۔ ان آبادیوں کے مسائل بھی گوناگوں نوعیت کی ہوتے ہیں ۔ غریب ، مزدور ، شہر کے دیہی علاقوں اور دیہاتی آبادیوں میں سرکار کی جانب سے فراہم کردہ سہولتیں نہ صرف نا کافی ہوتی ہیں بلکہ محرومی کی حد تک ہوتی ہیں ۔ مثلاً پانی ، بجلی ، گیس ، اسپتال ، اسکول کالج ، سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہت کم ہوتی ہیں ۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی جانب سے عوام کو دور دراز علاقوں میں بھی شہریوں کو بنیادی مسائل کا سامنا کم سے کم ہے مگر ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک میں عوامی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے ۔ بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش جیسے کثیر آبادی والے ممالک میں کروڑوں کی آبادی پر مشتمل میگا سٹی موجود ہیں جہاں گوناگوں نوعیت کے مسائل ہیں ۔

کراچی ، لاہور ،ممبئی ، دہلی کولکتا ،ڈھاکہ آبادی کے لحاظ سے میگا سٹی ہیں ۔ کراچی ، ممبئی اور کولکتا پورٹ سٹی ہونے کی وجہ سے ڈھائی سے تین کروڑ لوگوں پر مشتمل شہر ہیں اور یہ ملک کے معاشی حب بھی ہیں ۔ ان شہروں میں لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں پر مشتمل کچی آبادیاں اور جھوپڑ پٹیاں موجود ہیں جہاں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہر طرح کے جرائم نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ یہی وہ آبادیاں ہیں جہاں سے پوش علاقوں کے مافیاز ، بڑے اسمگلروں ، انڈر ورلڈ کے لوگوں اور سفید پوش جرائم پیشہ افراد اور ایوانوں میں موجود کالی بھیڑوں اور بیوروکریٹ کو خام مال میسر ہوتا ہے جس سے تمام کالے دھندوں کو غریب نوجوان مل جاتے ہیں ۔

ان بڑے شہروں کی پوش آبادیوں میں لگژری بنگلوز ، فلیٹوں میں رہنے والے لوگوں کی دنیا الگ ہے ۔ ایک پڑوسی دوسرے کے بارے میں لا علم ہوتا ہے ۔ یہ راون کے لنکا کے مانند ہر آدمی نو ہاتھ کے قد والا ہوتا ہے ۔ یہ اک دوسرے کو گھاس نہیں ڈالتے کیونکہ انہیں زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں اب تو انہیں بازار میں شاید ہی خریداری کے لئے جانے کی زحمت اٹھائی پڑتی ہے ۔ یہ ہر چیز آن لائن منگوا لیتے ہیں ۔ رات کلبوں اور five star hotels میں گزارتے ہیں ویک اینڈ پر دبئی اور لندن شاپنگ کرنے جاتے ہیں۔ ان کی اولادیں عام آدمی کی زندگی اور مسائل سے ناواقف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے جیسا سمجھنے کی بھی روادار نہیں ہیں ۔ اعلیٰ درجے کے تعلیمی گاہوں کے خریدے گئے اسناد اور والدین کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر یا تو سیاسی طور پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی مل جاتی ہے یا پھر بڑے تجارتی ٹھیکے اور لائسنسوں کی بنیاد پر دولت ان کے گھروں کی باندی ہوتی ہے۔ اس زر کثیر اور افراط زر کی وجہ سے ان کے اندر ایسی انفرادیت اور نخوت پیدا ہو گئی ہے کہ یہ اپنے سے کم درجہ لوگوں سے ملنا گوارہ نہیں کرتے ،چاہے ان کا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ۔ ان پوش علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بڑے تاجر پیشہ ، بڑے بڑے مافیاز کے لوگ ، سیاست دان ، بیوروکریٹ ، پولیس افسران ، بلڈر اور صنعت کار اور فلمساز ،نامور اداکار اور اداکارائیں ہیں ۔ لہٰذا معاشرتی رابطے اور تعلقات کا دار و مدار نظریہ ضرورت یا بڑے ہوٹلوں میں منعقد پروگرام ہوتے ہیں ۔آبادیوں میں رہنے والوں کو روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے ہیں ۔

ان ممالک کے پڑھے لکھے لوگوں میں پیشہ ورانہ اہلیت کے افراد بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے خلیجی ممالک ، یورپ ، امریکہ اور جاپان میں سکونت پذیر ہوئے ۔ آمدنی کی وجہ سے ان لوگوں نے بھی پوش علاقوں میں اپنے رہائشی مکانات بنائے مگر ان کے بوڑھے والدین ان مکانوں میں اکیلے رہ گئے ۔ انفرادیت اور خود غرضیوں نے معاشرتی تعلقات ، روا داری اور خدمت خلق کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ دیگر مذاہب کی بات تو الگ ہے مگر مسلم معاشرے میں اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا ۔ قیامت میں سب سے پہلے پڑوسیوں کے بارے میں سوال ہوگا ۔

آپؐ نے فرمایا کہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اتنی ہدایتیں نازل ہوئیں کہ میں نے سوچا کہ کہیں اللہ تعالیٰ وراثت میں پڑوسیوں کے حقوق متعین نہ کر دے ۔

ہمیں اس بات کا اکثر تجربہ ہوا ہے کہ ان پوش علاقوں میں کسی کا پتہ پوچھو تو اک پڑوسی دوسرے پڑوسی سے لا علمی کا اظہار کرتا ہے ۔ لیکن گاؤں دیہات میں رہنے والے پورے گاؤں کے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں حالانکہ دوسرے گاؤں کے لوگوں کے بارےمیں میں بھی خیر خبر رکھتے ہیں ۔ مگر اس طرح کے معاشرتی رابطوں کا فقدان پوش علاقوں میں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے رہائشی علاقوں کے بنگلور میں خطرناک قسم کے جرائم کے اڈے قائم ہو جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بارےمیں میں خبر رکھنا ضروری نہیں سمجھتے ۔ کراچی ، لاہور ، ممبئی ، کلکتہ ، ڈھاکہ جیسے شہروں کے پوش علاقے عالمی سطح کے مافیاز کے گڑھ بن چکے ہیں ۔ کیوں کہ پولیس بھی ان با اثر افراد کے علاقوں میں جانے سے گریز کرتی ہے ۔ پوش علاقوں میں سماجی اور معاشرتی المیوںنے مسلمان معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

یہ بات بھی درست ہے کہ پوش علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت مالدار طبقے سے تعلق رکھتی ہے یہ لوگ بڑے پیمانے پر فلاحی کاموں میں انفاق کرتے ہیں ،شہر کے تمام دینی ، فلاحی کاموں میں حصہ بھی لیتے ہیں ، مدارس ، مساجد ، تعلیمی ادارے ، بڑے بڑے فلاحی اسپتال انہیں لوگوں کے انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے سے چل رہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اپنے علاقوں میں سماجی تعلقات قائم رکھنے کے بجائے اپنی انفرادی زندگی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آبادیوں میں پھیلتی ہوئی برائی ، فحاشی اور جرائم کے سد باب میں کردار ادا کرنے سے کتراتے ہیں اور اپنی کاروباری مصروفیات کا بہانہ بناتے ہیں۔ حالانکہ حضرت عثمانِ غنی ؓ بھی ملٹی نیشنل کاروباری تھے ،مگر آپؓ نے اسلام کی سربلندی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ۔ ’’جو میری امت کے معاملات سے لا تعلق رہتا ہے وہ مجھ سے نہیں ۔ ‘‘یہ حدیث مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ معاشرتی زندگی کا تقاضا ہے کہ آدمی آس پاس میں رہنے والوں کی خبر گیری بھی کرے اور واقفیت بھی رکھے ۔

رسول اللہؐ نے فرمایا ۔’’اس شخص کو دنیا میں جنت مل گئی جس کو تین چیزیں مل جائیں ۔ نیک بیوی ، صالح اولاد اور اچھا پڑوسی ۔‘‘ یہ تینوں چیزیں پر سکون زندگی کی ضمانت ہے ۔ جس کا فقدان پوش علاقوں میں با لخصوص اور دیگر آبادیوں میں با العموم موجود ہے ۔ اب تو حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک غریب ماں باپ کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنتا ہے تو وہ والدین کو اپنے ساتھ رکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ یہ طبقاتی تعصب کا زہر ہے جو پھیلتا جا رہا ہے ۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے ۔
پرندوں کے پر نکلے والدین اکیلے رہ گئے

Share This Article