زندہ قوموں کا ماضی ان کے لئے تجربات کا ایک ایساخزانہ ہوتا ہے جس میں وہ اپنے حال کو سنوارنے اور مستقبل کی بنیادیں تراشنے کیلئے رہنمااصول تلاش کرتی ہیں ۔وہ ہر اتار چڑھاو ، ہر شکست و ریخت کی گہرائیوں میں اتر کر فکر اور عمل کے وہ موتی تلاش کرتی ہیں جو انہیں شان و شوکت ، عزت و عظمت اور علم و حکمت کی بلندیوں پر سرفراز کرکے دنیا بھر میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں ۔جو قومیں فکری و عملی انحطاط کا شکار ہوتی ہیںوہ سب سے پہلے اپنے ماضی کی تجربہ گاہ سے باہر نکل جاتی ہیں ۔وہ تجربوں اور تلاش کو چھوڑ کراپنی تاریخ کو پسند اور ناپسند کے خانوں میں تقسیم کرنے پر اپنی ساری توانا ئیاں صرف کردیتی ہیں ۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے عظیم تہذیبوں اور برتر قوموں کو بدترین زوال سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔یہی رویہ ہم یونانی اور رومی تہذیب کے زوال میں بھی دیکھتے ہیں اور بغداد کے اسلامی عروج کے منگولوں کے ہاتھوں برباد ہونے میں بھی ۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بھی یہی اسباب تھے اور اب ہندوستان بھی اسی روئیے کا شکار ہوکر اپنے قومی زوال کے اسباب تیار کررہا ہے ۔ہندوتوا کا فلسفہ ایک قومی تحریک کی صورت میں جس تیزی کے ساتھ چھارہا ہے اسی تیزی کے ساتھ اس عظیم تہذیب کے وہ سارے ستون کھوکھلے ہوکر گررہے ہیں جن پراسے صدیوں کی انسانی کوششوں نے کھڑا کیا تھا ۔ہندوتوا اسے پانچ ہزار سال پیچھے دھکیل رہا ہے جب اس ملک میں آریائی تہذیب کا بول بالا تھا ۔آریہ بھی باہر سے آئے تھے اور یہ تہذیب بھی ہندوستان کی تہذیب نہیں تھی لیکن آریاوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اور اس تہذیب نے یہاں نشو و نما پائی اس لئے یہ ہندوستانی تہذیب کہلائی ۔لیکن یہ وہ ہندوستان نہیں تھا جس کا نقشہ اس کے بعد تیار ہوا۔یہ بھارت تھا ۔ وقت نے آریائی تہذیب کو بھی ملیامیٹ کردیا اور اس کے کھنڈروں پر نئی تہذیبوں کا جنم ہوا ۔
وسط ایشاء سے نئی ہوائیں آئیں جنہوں نے فکر و تہذیب کے نئے کنول کھلائے اور بھارت ہندوستان بن گیا ۔مغل دور نے ہندوستان کو حقیقی معنوں میں دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ اکبر نے اس کو ایک ایسی قوم کی شکل دی جس میں تمدن کے نئے قلعے تعمیر ہوئے ۔ استحکام اور ترقی کے زینے تشکیل پائے اور مختلف قوموں کا ایک واحد ملک دنیا میں آباد ہوا ۔اکبر کی بنائی ہوئی مضبوط عمارت ہی تھی جس پر اس کی کئی نسلوں نے راج کیا ۔جب جہانگیر کے دربار میں انگریز تجارت کیلئے اجازت نامہ حاصل کرنے پہونچے تو ان کے لئے مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس ملک سے بہت کچھ تو لے جاسکتے ہیں لیکن یہاں کیا بیچ سکتے ہیں اس ملک میں تو کسی ایک چیز کی بھی کمی نہیں جو یہاںبیچی جاسکے ۔مغلوں کے زوال کا سبب بھی یہی رویہ بنا ۔اس کے آخری حکمرانوں نے تاریخ کی تجربہ گاہ سے باہر نکل کر اپنی ذات اور اپنی سوچ کو فکر و عمل کا نقشہ راہ بنایا ۔انگریزوں نے اس ملک کو جدید علوم اور صنعتی دور سے روشناس کرایا لیکن ان کی کوشش یہ تھی کہ اس ملک کی اپنی رہی سہی تہذیبی اور فکری بنیادوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیا جائے انہوں نے اس ملک میں رہنے والی قوموں میں ایسے گروہ پیداکردئیے جو ناعاقبت اندیشی ، انتہا پسندی ، مذہبی اورگروہی عصبیتوں کو عقیدوں اور نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کا آغاز کرنے لگے ۔ کئی مذہبی ،سیا سی اور سماجی تحریکوں کا جنم ہوا جن میں ہندوتوا کی تحریک بھی شامل تھی لیکن تحریک آزادی کی قیادت کانگریس کے ہاتھ میں گاندھی ، نہرو اور ابوالکلام آزاد جیسے رہنما اسے حاصل تھے جو اس مشترکہ قومیت پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے بظاہر تیار نہیں تھے لیکن دوقومی نظرئیے کی مضبوط تحریک قاید اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ابھری اور چھاگئی۔اس نے ہندو سماج میں ردعمل کے جو جذبات پیدا کردئیے انہوں نے آر ایس ایس جیسی تحریکوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ تحریک پاکستان کے دوران قومیتوں کے درمیان شدید منافرت، فرقہ وارانہ فسادات کے طوفان اور دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کے باوجود مشترکہ قومیت کا نظریہ ہی ملک کی نظریاتی ، سیاسی اورآئینی بنیاد قرار پایا ۔لیکن ردعمل کے مشتعل جذبات نے اپنے وقت کے مقبول ترین لیڈرموہن داس کرم چند گاندھی کو ہندوستان کا راشٹر پتا ہونے باوجود بھی گولی کا شکار بنایا ۔پنڈت نہرو تاریخ پر گہری نظر ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر دور کی تہذیب ، نظریوں ، فلسفوں اور رویوں کو بھی گہرائی کے ساتھ سمجھتے تھے اس لئے وہ اس مشترکہ تہذیب کی علمبرداری کے سوا اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی ایک کمزوری بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ انہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ ان کے سوا کوئی اس ملک کو نہ متحد رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسے جدید علمی ، سائنسی اور صنعتی علوم سے آراستہ کرکے ترقی پذیر ملکوں میں ایک مقام دلاسکتا ہے ۔اس کے لئے انہیں جب بھی اور جہاں بھی سمجھوتے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے بلا تامل کردئیے ۔جب انہیں اندازہ ہوا کہ ہندو جذبات کی تسکین کے لئے انہیں اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنا پڑے گا تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۔وہ خود اردو کو ملک کی قومی زبان بنانے کے حامی تھے لیکن اس کے لئے کوئی سٹینڈ نہ لے سکے کیونکہ ہندو جذبات اس کے آڑے آرہے تھے ۔ کشمیر کے معاملے میں بھی انہیں اس مرحلے پر ہندو جذبات کی تسکین کیلئے اپنے جگری دوست اور نظریاتی اتحادی شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دینا پڑا ۔ رائے شماری کا اپنا موقف بدل دینا پڑا اور ریاست کی اندرونی خود مختاری کو کھوکھلا کرنے کا بیڑا اٹھانا پڑا ۔ان سمجھوتوں نے انہیں دوغلے سیاسی کردار کی علامت بناکر رکھ دیا ۔ یہاں ہی وہ دھوکا کھاگئے ۔وہ تاریخ کا یہ سبق بھول گئے کہ دوغلے سیاسی کرداروں کو وقت بری طرح سے رسوا کردیتا ہے ۔ آج ان کے ساتھ یہی ہورہا ہے ۔آج جب ہندوتوا کے نظرئیے نے سارے سیاسی نظریات کو ملیامیٹ کرکے اقتدار و اختیار اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔ مشترکہ تہذیب کے سارے نشان مٹانے کی بھرپور مہم شروع کی جاچکی ہے ۔ شاہراہوں ، علاقوں اور تاریخی یادگاروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں ۔
نصاب کو تبدیل کرکے مشترکہ قومیت کے تاریخی نشان مٹانے کے ساماں کئے جارہے ہیں ۔پنڈت نہرو جو اپنی تمام سیاسی پینترے بازیوں کے باوجود مشترکہ قومیت کی علامت کے طور پر آج بھی موجود ہے کوکیسے برداشت کیا جاسکتا ہے ۔اس نام کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا بھی نہیں جاسکتا ہے اس لئے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اسے قومی غدار قرار دیکر ساری جدوجہد اور سیاسی بلندیوں کے ساتھ کردار کشی کے کیچڑ میں غرق کیا جارہا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس ہو دونوں ہندو نیشنل ازم کی علمبردار اور مشترکہ قومیت کے نظرئیے کی پیدائشی دشمن ہے ۔ اس لئے کسی بھی ایسے قومی کردار کو جو مشترکہ قومیت کی علامت ہو کیسے باقی رہنے دیا جائے ۔ گاندھی اس نظرئیے کا ہمالیہ تھا ۔اسے غدار قرار دیکر تاریخ سے حذف کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے اسے راشٹر پتا تسلیم کیا گیا چونکہ اس کا کردار تبدیل کرنے کے مواقع موجود تھے ۔ وہ رام کا پجاری تھا۔مندر بھی جاتا تھا اور پوجا بھی کرتا تھا اور گیتا کے اشلوک بھی پڑھا کرتا تھا اس لئے ہندوتا کے نظرئیے سے اسے جوڑنا آساں تھا۔چنانچہ اسے ہندوتا کے ساتھ اس کے باوجود جوڑا جارہا ہے کہ کئی معاملات پر پاکستان کی حمایت کرنے کے ’’ جرم ‘‘ میں ہی اسے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔نہرو نہ مندر جاتا تھا نہ اس نے کبھی دھرم کی بات کی اس لئے اسے غدار قرار دے کر ہی تاریخ سے بے دخل کیا جاسکتا تھا ۔آج اسے انگریز کا ایجنٹ اور ہندوستان کے ہر مسئلے اور مصیبت کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے حالانکہ وہ نہ ہوتا تو ریاست جموں و کشمیر قاید اعظم محمد علی جناح کی بلینک چیک تھی جسے وہ جب چاہے کیش کرجاتے ۔سردا ولبھ بھائی پٹیل ریاست جموں کشمیر پاکستان کے حوالے کرانے کے لئے بے قرار تھے تاکہ جوناگڑھ ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔گاندھی بھی کشمیر میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے اس نے جو بھی کیا نہرو کے ہی اصرار پر کیا ۔پٹھان کورٹ جو پاکستان کے حصے میں آیا تھا اور بھارت و کشمیر کے درمیان واحد زمینی راستہ تھا کوماونٹ بیٹن اور لیڈی ماونٹ بیٹن کی وساطت سے آخری وقت پر ہندوستان میں شامل کرنا پنڈت نہرو کا ہی کرشمہ تھا ۔مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرنے کے پیچھے بھی پنڈت نہرو کی ہی کوششوں کا عمل دخل تھا ۔نیشنل کانفرنس کی قیادت کو کانگریس کے قریب لانے میں اس کے سوا اور کس نے انتھک کوششیں کیں ۔وہ کشمیر کا دیوانہ تھا اوراسے حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرگزر نے پر تیار تھا ۔آخر کار اس کی کوششیں رنگ لائیں اور کشمیر اس کے ہاتھ آہی گیا ۔ اس مہم کی کامیابی نے اسے ہندوستان میں ہیرو سے سپر ہیرو بنادیا لیکن اس کے بعد اس نے کشمیر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی بدترین انسان بھی اپنے دشمن سے نہیں کرتا ۔سیکولر ازم اورجمہوریت کے اس علمبردار نے کشمیر میں جمہوریت کو پاوں تلے روندھ ڈالا اور سکیولر ازم کو پامال کردیا ۔ اس دوغلے کردا ر کا صلہ آج اسے وقت دے رہا ہے ۔ چاروں طرف سے اس کے کردار پر ہندوستان کیچڑ اچھال رہا ہے ۔وزیراعظم کو جب بھی موقع ملتا ہے اس کے نام رسوائی لکھ دیتے ہیں ۔ وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے قوموں کی تقدیروں کے جو مالک ہوتے ہیں ان کی غلطیاں کبھی معاف نہیں کرتا ۔ تاریخ کا یہ سبق وہ قوتیں فراموش کررہی ہیں جو آج ہندوستان کی تاریخ ہی بدل دینے پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں ۔وہ تاریخ تو نہیں بدل سکتے لیکن ایسا کرکے اپنے بدترین انجام کے ساتھ ملک کے زوال کے بھی اسباب تیار کررہے ہیں ۔وہ وقت زیادہ دور نہیں ہوگا جب ان کے ساتھ ساتھ اس ملک کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)