جموں کے پونچھ، راجوری، کٹھوعہ، سانبہ وغیرہ میں قریب 15ہزار پختہ مورچے یعنی بنکر تعمیر کئے جارہے ہیں۔اس منصوبے پر 415کروڑ روپے کا سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے۔نریندر مودی نے 2014میں اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ 56انچ کی چھاتی والا وزیراعظم آگیا ہے، اب پاکستان کی جارحیت کا جواب دیا جائے گا۔ پھردو سال بعد وادی میں ہمہ گیر عوامی تحریک کے دوران اُڑی میں مسلح حملہ ہوا،20فوجی مارے گئے اور ایک ہفتے کے اندر پاکستان کے اندر سرجکل حملوں کا دعویٰ کیا گیا جو کافی متنازعہ ثابت ہوا، یہاں تک کہ اسمبلی ممبر انجینئررشید نے دعویٰ کہ کہ فوج فرضی ویڈیو بنا رہی ہے تاکہ دنیا بتایا جاسکے کہ واقعی سرجکل سٹرائیک ہوئی تھی۔
پھر کہا گیا این آئی اے چھاپوں، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی سے ’دہشت گردی‘ اورعلیحدگی پسندی کی کمر ٹوٹ گئی لیکن صرف پچھلے سال 400حملے ہوئے اور فوج کو 700کارڈن اینڈ سرچ آپریشن یا ’کاسو ‘کرنا پڑے۔220عسکریت پسند تو مارے گئے لیکن پولیس، فوج و نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد بھی 100کے قریب ہے۔چالیس عام شہری بھی اس لڑائی کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس قدر خونین مگر دھیمی جنگ کے باجود حکام نے اعتراف کرلیا کہ کشمیرمیں فی الوقت مزید 200عسکریت پسند سرگرم ہیں اور ان میں سے بعض فدائی سکارڑ بھی ہیں۔ یہاں تک کہ اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک ریسرچ سکالر بھی مبینہ طور حزب المجاہدین میں شامل ہوچکا ہے۔
یہ اعدادوشمار ادنیٰ درجہ کا فہم رکھنے والے کے لئے بھی قطعی بھارت کی کشمیر میںسیاسی، عسکری یا اخلاقی فتح نہیں ہے۔ کیونکہ مودی کے بھارت میں جس قدر ملٹری سوچ اور ہائپرنیشنلزم سیاست اور سفارت کاری پر حاوی رہے اسی قدر سرحد سے لے کر کشمیر کے اندرونی علاقوں تک حالات بدسے بدتر ہوتے گئے۔ اسرائیل، روس اور امریکہ سے اربوں روپے مالیت کے آلات خریدنے کے باوجود د وسال کے اندر کشمیر میں 400سے زیادہ عسکریت پسند سرگرم رہے اور ان کی پشت پرہمہ گیرعوامی حمایت رہی، یہاں تک کہ تصادموں کی جگہ مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں بھی 14خواتین سمیت 40افراد مارے گئے۔ کل ملا کر سرحدیں اب بھی بے قابو ہیں اور عوام اب بھی مزاحمت پر آمادہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دلی میں سب سے ’’طاقت ور‘‘ حکومت اور سرحدوں پر مثالی چوکسی کے باوجود صرف تین سالہ عرصہ میں کم ازکم سو سے زیادہ پاکستانی عسکریت پسند سرحدعبور کرکے وادی میں مقامی عساکر کے ہمراہ برسرپیکار ہوگئے۔
تحریک کے اس خونچکاں مرحلے کا ماحصل اولاً تو اخلاقی ہے ،کیونکہ ملٹری مائٹ کشمیریوں کی سیاسی خواہشات کو ختم نہیں کرسکا۔ ثانیاً اس کے بعض سیاسی فوائد بھی ہیں۔ سینک کالونیوں، ہوم لینڈ کے شوشے اور آئینی تحفظات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے جو منصوبے 2014/15میں سامنے آئے تھے وہ فی الحال معطل ہوگئے۔ ثالثاً یہ کہ فوجی جنرلوں سے کالم نویسوں اور اپوزیشن رہنماؤں خاص طور پر سابق وزیرداخلہ پی چدامبرم اور بی جے پی کے حلیف نتیش کمار تک سب لوگ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کی غالب اکثریت کے خواہشات کو فوجی طاقت سے کچلا نہیں جاسکتا۔ بھارت کے سیاسی سسٹم میں سوچ کی اس تبدیلی کے لئے قربانیوں کی صورت میںجو قیمت ادا کرنا پڑی ہے، وہ ایک محدود طبقے میں سوچ کی معمولی تبدیلیوں سے سینکڑوں گناہ زیادہ ہے، لیکن پوری دنیا کی نظروں نے کشمیری مزاحمت نے بھارت پر اخلاقی برتری حاصل کرلی ہے۔
اب مقامی ہندنواز اس قدر ظلم و جورکے باوجود پھر ایک بار اگلے انتخابات کی ریہرسل کے لئے معصوم کشمیریوں کو پنچایت الیکشن کی بھٹی میں جھونکنا چاہتے ہیں۔حالانکہ اس نئی پالیسی کو بعض لوگ پولیٹکل انجنیئرنگ سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعہ پی ڈی پی یا دوسری ہندنواز جماعتیں کھوئی ہوئی عوامی ساکھ کو کسی حدتک بحال کرسکتے ہیں۔
اسی پس منظر میںحزب المجاہدین کے ایک معروف کمانڈرنے فروری میں مجوزہ انتخابات کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پنچایتی الیکشن لڑنے والوں کی آنکھوں میں تیزاب چھڑک کر انہیں نابینا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حالانکہ یہ ردعمل محض عوامی ناراضگی کا مظہرہوسکتا ہے، کیونکہ کمانڈر موصوف نے قتل نہیں بلکہ معذور کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس کے لئے گولی مارنے نہیں بلکہ تیزاب چھڑکنے کی بات کی ہے۔لیکن اس کے باوجودبعض حلقے اس بیان کو حزب المجاہدین کی طویل تاریخ اور شبیہ کے ساتھ متصادم قرار دے رہے ہیں ۔کیونکہ گزشتہ چندبرسوں کے دوران فوج اور ارباب اختیار کے خلاف عسکریت پسندوں نے جو اخلاقی برتری حاصل کرلی ہے، یہ بیان اُس مارل کیپٹل کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔پنچایتی انتخابات ایک الگ چیز ہے، اس میں اُمیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اس دھمکی کو تذویراتی زاوئے سے دیکھیں توحکومت کے لئے انتخابات منعقد کرنے اور اُمیدوار ڈھونڈنے کی قیمت میں اضافہ ہوگا، لیکن تحریکی زاوئے سے دیکھیں تو کم ازکم ایک لاکھ لوگ ہندنواز مین سٹریم کی جھولی میں گر سکتے، وہ اپنی سیکورٹی اور دوسرے مراعات کے لئے مقامی پولیس افسروں اور فوجی کمانڈروں کے پیادے بن جائیں گے۔ اور پھر حریف سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے سیاسی عزائم میں رُکاوٹ بننے والے لوگوںکو ٹھکانے لگانے کا موقع بھی ملے گا، اور پولیس کے پاس پہلے ہی یہ بہانہ ہوگا کہ کسی اُمیدوار پر حملہ کس نے کیا۔معنی خیز ہے کہ عمرعبداللہ نے نہایت چالاکی سے فورسز کے پیلٹ گن اور تیزاب کی دھمکی کو ایک ہی پیرائے میں تولتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ چھرا ہو یا تیزاب، بینائی تو عام کشمیری کی ہی چھینی جارہی ہے۔بعض عوامی حلقوں کو شبہ ہے کہ کہیں پنچایتی انتخابات سسٹم کی طرف سے ایک کونٹر انسرجنسی حکمت عملی تو نہیں، لیکن پھر بھی حزب المجاہدین جیسی تنظیم سے نپے تلے ردعمل اور عوام دوست حکمت عملی کی اُمید کی جاتی ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر