محکمہ کی لاپرواہی سے’ باوا اور آڑمرگ ‘علاقوں کے غریب لوگ آج بھی کھلے عام جانے پر مجبور
محمد تسکین
بانہال// پچھلے سال اگست کے مہینے میں چیف سیکریٹری جموں و کشمیر ارون مہیتہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام 285 بلاکوں اور 6650 گاوں کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک (ODF ) بنایا گیا ہے اور تمام لوگوں کو بیت الخلاء فراہم کئے گئے ہیں لیکن زمینی سطح پر سرکار کے یہ دعوے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور بہت سارے علاقوں میں ابھی تک محکمہ دیہی ترقیات کیطرف سے لوگوں کو بیت الخلاء فراہم ہی نہیں کئے گئے ہیں۔ سب ڈویژن بانہال کے متعدد علاقوں میں سرکاری سکیموں کا اطلاق زمینی سطح پر عمل میں نہیں لایا گیا ہے اور مرکزی سرکار کی سکیموں سے لوگوں کو جوڑا ہی نہیں گیا ہے جس کی وجہ سے بیشمار سرکاری سکیموں کے فائدے عام غریب اور مستحق افراد تک ابھی تک پہنچے ہی نہیں ہیں اور اس کیلئے محکمہ دیہی ترقیات کے ملازمین اور پنچایتی نمائندوں کی کوتاہی ذمہ دار بتائی جاتی ہے۔سرکار کی طرف سے خطہ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گوجر بکروال طبقوں کیلئے کئی خصوصی سکیمیں موجود ہیں لیکن ضلع رامبن کی تحصیل کھڑی کی کئی گوجر بستیوں میں سرکاری سکیموں کا دور دور تک کوئی سراغ ہی نہیں ہے اور کھلے میں رفع حاجت سے پاک علاقے قرار دینے کا سرکاری دعویٰ یہاں غلط ثابت ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں زمینی سطح پر محکمہ دیہی ترقیات اور پنچایتی نمائندوں کی طرف سے لوگوں کو کوئی جانکاری دی ہی نہیں گئی ہے اور ہر گاوں میں مرد و خواتین کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک بنانے کیلئے ’آئو ڈی ایف ماڈل ‘‘کا سرکاری دعویٰ سرکار اور محکمہ دیہی ترقیات کی فائلوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
تحصیل کھڑی کے باوا ، آڑمرگ ، کاونہ اور آکھرن کے علاقوں میں گوجر طبقے کے لوگ آباد ہیں اور پیشہ مزدوری اور کھیتی باڑی ہے اور برفباری سے پہلے ہی مرد حضرات پنجاب اور دیگر ریاستوں میں مزدوری کیلئے جاتے ہیں تاکہ گھروں میں پڑے بال بچوں اور بزرگ والدین کیلئے کمایا جا سکے۔تحصیل کھڑی کی گوجر بستیوں میں ابھی تک محکمہ دیہی ترقیات کی طرف سے بیت الخلاء فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور تمام تر سرکاری اور محکمہ دیہی ترقیات کے دعوؤں کے باوجود مرد وخواتین کو رفع حاجت کیلئے باہر کھلے میں جانا پڑتا ہے اور سرکار کی طرف سے سو فیصدی ائو ڈی ایف کے دعوے سراب اور جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ تحصیل کھڑی مہو منگت کی پنچایت ترگام کے چودھری محمد یوسف ، چودھری غلام حسین سمیت گوجر کی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے کئی مقامی گوجروں نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک سو سے زائد گوجر کنبے آباد ہیں اور تین چار گھروں میں ہی بیت الخلاء کی سہولیات موجود ہیں جبکہ عام لوگ سرکار کی اس سکیم سے محروم ہیں اور ابھی بھی انہیں کھیت کھلیانوں ، پتھروں اور درختوں کی اْوٹ میں جاکر حاجت بشری کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی بیت الخلاء فراہم کئے جائینگے اور دو ہفتہ پہلے بھی ان سے کاغذی لوازمات لینے کے باوجود بھی انہیں بہت الخلاء فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں اور محکمہ دیہی ترقیات اور پنچایتی راج کی عدم توجہی کی وجہ سے پہلے ہی سے تاخیر کا شکار بیت الخلاء کا یہ معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تعینات محکمہ دیہی ترقیات کے ملازمین اور پنچایتی نمائندوں کی طرف سے انہیں سرکاری سکیموں خاص کر ODF کی مہم کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی ہے اور ملک کی آزادی سے اب تک گوجر طبقے کے لوگ تعمیر و ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ دیہی ترقیات و پنچایتی راج کے اہلکاروں کی طرف سے فراہم کی گئی اطلاعات پر ہی چیف سیکریٹری جموں و کشمیر نے پچھلے سال اگست کے مہینے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کے 285 بلاکوں میں 6650 گاوں کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک بنایا گیا ہے اور ان کا یہ دعویٰ تحصیل کھڑی کی گوجر بستیوں میں جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ وہ ریڈیو پر سنتے رہتے ہیں کہ مرکزی سرکار کی غریب اور عام لوگوں کیلئے بہت ساری سکیموں سے لاکھوں اور کروڑوں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن باوا اور آڑمرگ کی گوجر بستیوں تک ان سکیموں کے فائدے نہیں پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سے ہر روز سوچھ بھارت ابھیان سمیت حفظان صحت کے بارے میں بڑے بڑے پروگرام اور دعوے کئے جاتے ہیں لیکن وہیں دوسری طرف ضلع رامبن میں باوا اور اڑمڑگ کی گوجر بستیوں کو بیت الخلاء کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور ان دعووں کے باوجود ان گوجر بستیوں کے مرد ، خواتین اور بچے رفع حاجت کیلئے باہر کھلے میں جانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان سرکاری ملازمین کے خلاف کاروائی عمل میں لائے جن کی وجہ سے ہر گھر بیت الخلاء پہنچانے کا سرکاری پروگرام اور دعویٰ سراب ثابت ہو رہا ہے اور سرکار کو زمینی سطح کی اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کے بجائے گمراہ کیا جا رہا ہے۔