رشید پروین ؔ سوپور
ایران ، اسرائیل میں جنگ بندی ڈرامائی انداز میں ہو چکی ہے ، اس جنگ بندی کی وجوہات ، اسرائیل کی مجبوریاں یا امریکہ کی حکمت عملی کے تحت ہوئی ہے یا ایران بھی کسی طرح جنگ بندی کی طرف مائل تھا ، اس پر آپ نے بہت کچھ پڑھا ہوگا ، سمجھا ہوگا اور بہت سارے نتائج بھی اخذ کئے ہوں گے ، ایران جیت چکا ہے یا نہیں؟، جیت کے معنی اہداف حاصل کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس لحاظ سے ایران ہارا نہیں ہے ، کیونکہ اس نے اپنی مقدور کے مطابق اسرائیل اور امریکہ دونوں کو بھر پور جواب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ایران ۔ شام ، عراق اور دوسرے اسلامی ممالک سے کچھ اور منفرد کردار اور مزاج کا حامل ہے ،اسرائیل ہارا ہے یا امریکہ پشت بہ دیوار ہوا ہے ، ان باتوں سے الگ ہماری رائے یہ ہے کہ اصل میں یو این او کی ہار اور رسوائی ہوئی ہے اور اس لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کی شکست و ریخت بھی دیکھنے کو ملے گی، جس طرح سے لیگ آف نیشنز جس کے بارے میں واضح طور پر علامہ کا خیال تھا کہ کفن چوروں کی ایک جماعت ہے ،کی ٹوٹ پھوٹ بھی ہوئی تھی اور یہ ادارہ اپنی ناکارگی اور پابہ زنجیر ہونے کی وجہ سے تاریخ کے اندھیروں میں گم بھی ہوگیا ،لیکن مرتے مرتے اسکے تعفن زدہ پیٹ سے ایک اور بچے کو بر آمد کیا گیا جو فالج زدہ اور مفلوج تھا ۔فالج زدہ بچے کی صحت یابی کے کوئی امکانات نہیں ہوتے ، جس کے اعضا شِل ہوں، جس کے جسم کا انگ انگ اٹھنے بیٹھنے اور کروٹ لینے کے لئے بھی بڑی طاقتوں کا محتاج ہو اس کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتابلکہ اپنے جنم دینے والوں کے لئے بھی ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوتا ہے ، علامہؒ نے’’ داشتۂ افرنگ‘‘ کہہ کر لیگ آف نیشنز کی رسوائی کے ساتھ ساتھ اس کی پول بھی کھول دی تھی ، اس کے تخلیق کاروں کو دز دانِ کفن کہہ کر ان کی اصلیت واضح کی تھی اور ان کے سروںپر دستار بھی رہنے نہیں دی تھی۔ جس کا بھر م ٹوٹتے ہی فرنگیوں نے ایک اور طوائف یا داشتہ کی تخلیق کی جس سے یو این او کے نام سے جاناجا تا ہے۔ اس ادارے کو کن ذمہ داریوں سے نبر آزما ہونا چاہئے تھا؟ لیکن اس کتاب کا ورق ورق غلاظت میں لت پت ہے۔ امریکیوں نے جب بھی کسی ملک کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو اس ادارے کا کردار اور کام کیا رہا ؟ اس کے وجود سے اب تک اس ادارے نے کتنے جھگڑے روکے اور کہاں کہاں انصاف کیا ؟ اس کی تاریخ رُسوا کن ، بے وقار اور قابل مذمت ہی قرار دی جاسکتی ہے ۔ شاید اقبال ؒکی بصیرت اور بصارت نے پہلے ہی اس کا اندازہ کیا تھا ، اس دوسری داشتۂ کی تخلیق بھی چونکہ اسی خمیر سے اٹھائی گئی ہے جس میں تعفن اور سڑانڈکے سوا اور کچھ نہیں تھا ، اس فرق کے ساتھ کہ اب اس داشتۂ کے روابط پانچ بڑی طاقتوں سے جوڈ دئے گئے تھے اور اسطرح یہ نیا ادارہ اپنے آپ میں ’’پنج پتی ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے مسائل اور مصائب ’’ان پتیوں ‘‘ کے مفادات اور ترجیحات کی وجہ سے موجود رہے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا حجم بھی بڑھتا گیا۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری مسلسل ایران اسرائیل جنگ کے بڑھنے اور پھیلاو کا خدشہ ظاہر کرتے رہے لیکن بالکل بے بسی اور بے کسی کے عالم میں بیانات داغنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکے ، ظالم اور غاصب کے سامنے حق بات کہنے کی ہمت اور جرأت نہیں ، اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے خیال سے لرزاں و پریشان ، کیونکہ یہ سب عہدے دار امریکہ بہادر ہی کے پیادے ہوتے ہیں جو اسی کی مرضی اور منشا کے مطابق ان عہدوں پر فائض رہتے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ اگر چہ اقبالؒ نے ’’لیگ آف نیشنز ‘‘ کے بارے میں کہے تھے جو ۲۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۵ ءکو تشکیل دی گئی تھی اور جنگ عظیم کے اختتام پر اس مردہ لاش کو دفن کیا گیا تھا ۔ ۲۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ ءکو عیار فرنگیوں نے اس کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی وہی پرانی شراب نئی بوتلوں میں بند کر کے اس سے اقوام متحدہ کا نام دے کر پھر اقوام عالم کو اپنے شیشے میں اتارا ، اور چونکہ آج کی اقوام متحدہ کی خمیر بھی اسی ناکارہ اور بدبو دار آٹے سے گوندھی گئی تھی اس لئے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس ادارے نے کبھی کسی ملک کے حق میں انصاف بر مبنی فیصلہ نہیں دیا ، نہ کمزور اور ناتواں کی نگہبانی کی، نہ اس کے مفادات کی حفاظت کی اور محض پانچ ویٹو پاورس بڑے ممالک کی داشتہ بن کے اب تک قائم ہے ، اس ادارے کی تاریخ کے ایک ایک پنے سے بدبو ئیں اُٹھ رہی ہیں ، کیونکہ نہ تو یہ دنیا میں امن قائم کر سکی ، نہ عدل کی میزان کو بر قرار رکھ سکی اور نہ کسی ملک کی جارحیت کو روک سکی ہے، بلکہ ہر ہر قدم پر اس ادارے نے امریکہ اور روس کی طرف دیکھا ، جن کی ویٹو پاور نے کسی بھی انسانی مسلے کو نہ تو حل ہونے دیا اور نہ کسی بھی ملک کو انصاف اور عدل کی طرف گامزن ہی کیا۔ اپنی تشکیل سے لے کر اب تک یہ بڑے ممالک خصو صاً ا مریکہ اس بین الاقوامی ادارے کی عصمت دری کرتا رہا ہے اور جس طرح چاہا وقت وقت پر اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ واضح مثالیں اور سینکڑوں المناک حادثات اور اندوہناک جنگیں ہیں جنہیں روکا جاسکتا تھا ، لیکن ان ’’پانچ پتیوں ‘‘نے کسی بھی مسلے کو سلجھانے اور کروڑوں کی تعداد میںانسانی جانوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں ، بلکہ امریکی بے رحمی اور سفاکی کی مثالیں اتنی مہیب ہیں جن میں جاپان کی آبادیوں پر دو ایٹم بموں جیسے انسانیت سوز جرائم بھی شامل ہیں۔سلامتی کونسل میں لاتعداد قرار دادوں کے باوجودمسئلہ کشمیرجُوں کا تُوں رہا، امریکہ ویت نام پر حملہ آور ہوا اور اٹھارہ سال تک اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے باوجود جنگ ہار گیا، لیکن لاکھوں انسانی جانوں کو اپنی اَناا ور غرور کی بھینٹ چڑھاگیا ۔یو این او، بنگلہ دیش میں نسل کشی کو نہیں روک سکا ، بالکل اسی انداز میں یوگو سلواکیہ کی تباہی اور بربادی میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکا، میانمار میں مسلم آبادی کی تباہی کو روکنے میں ناکام رہا ، امریکی افغانستان پر حملہ آور ہوئے اور دس برس تک اس ملک کے سبزہ زاروں سے لے کر پہاڑوں تک کو بمباری سے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا اور پھر وہاں سے بھی شکست اپنی جھولی میں ڈال کر فرار ہونے پر مجبور ہوا ، اور پچھلی دہائیوں میں کئی عرب مسلم مملکتیں خاک اور خون کے ڈھیروں میں تبدیل ہوچکی ہیں ، لیکن یہ ادارہ کہیں بھی کوئی اہم رول ادا نہیں کرسکا سوائے اس کے کہ جب اس کے تخلیق کار چاہتے ہیں تو چھوٹے ممالک پرگھنٹوں میں حاوی ہوکر اپنے من پسند فیصلے کرالیتے ہیں ۔ یہی اس کا طریق کار رہا ہے ، کسی ملک میں اورکسی ادارے میں اتنا دم بھی نہیں کہ حق کو حق کہہ سکے اور زباں کھول کر امریکہ بہادر کے ہاتھوں پر لگے کروڑوں عوام کے خون پر صرف اظہار افسوس ہی کر سکے۔ اسی مفکر اسلام اور مردِ قلندر نے یہ بھی کہا تھا کہ طہران ہو اگر عالم مشرق کا جینوا، شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے۔ لیکن مسلم میں نہ وہ جوش ہے ، نہ جذبہ ہے اور نہ امامت کی خواہش ہے۔ بس مر مر کے جینے ،وہ بھی امریکی اور اسرائیلی رحم و کرم پر دن گذارنے کی خواہشیں ہیں تاکہ اپنے عالیشان محلات کی رنگینیوں ،عشرت کدوںاور اپنی بنائی ہوئی اُن جنتوں سے باہر کی دنیا میں کہیں جھانکنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ سب اپنے انجام کو بہت جلد پہنچ جائیں گے ، کیونکہ ان کے بارے میں حدیث مبارک ہے کہ سو میں سے نناوے قتل ہوں گے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری انتونیو گیٹرس نے ایران پر امریکی ایٹمی تنصیبات پر شدید حملوں کے بعد جنگ بندی کی اپیل کی تھی، لیکن ،ایران پر امریکی حملے اور شدید بمباری کا کیا جواز بنتاتھا ،اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بول سکا اور کون نہیں جانتا کہ امریکی چھتر چھایا ہی میں اسرائیل اور امریکہ نے ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کوفنا کے گھاٹ اتارا ہے۔ اپنے دفاع اور اپنی بقا کی خاطر ایران نے بھی اپنی طاقت کے مطابق جب اسرائیل کو جواب دیا ہے اور ڈٹ کر کھڑا ہوا تو امریکہ نے بڑی اوتاولی میں ایران پر براہ راست بمبار ی کی اور ستم ظریفی یہ کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف اس وقت اپنی جنگ شروع کی جب امریکہ اور ایران کے مذاکرات چل رہے تھے ، ظاہر ہے کہ اسرائیل کا منشا یہی تھا کہ کہ ایران امریکہ کسی ڈیل پر پہنچنے سے پہلے ہی ایران کو ہر طرح سے پشت بہ دیوار کیا جائے ، اس کے بجائے کہ امریکہ اسرائیل کی سر زنش کرتا اور اس کے اس فعل کو نا پسند کرتا، اس نے اسرائیل کی پیٹھ تھپکی اور اس سے حوصلہ دیتا رہے ، اور خود بھی جنگ میں کود پڑا ۔یہ کس سے معلوم نہیں کہ اسرائیل کا سارا گھاتک اور خطرناک ہتھیار جس نے غزہ کو کھنڈروں کے ڈھیروں میں تبدیل کیا ہے امریکی فیکٹریوں میں ڈھالا جارہا ہے اور اس کے لئے وہ ڈالرس بھی سعودی اور عرب امارات سے وصول کر رہا ہے ،اتوار کو سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں گیٹرس نے کہا کہ ’’بدلے کے بعد بدلے کے ایک گڑھے میں گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں اور ہمیں فوری طور جنگ بند کرنی چاہئے ‘‘لیکن سوال یہ ہے کہ اس ادارے میں کھل کر اسرائیل یا امریکہ کی مذمت کرنے کی جسارت کیوں نہیں؟ یورونیم کی افزودگی کو شک کی بنیاد بناکر ایران پر جنگ مسلط کی ، کیا یہی عراق کی تباہی میں ان کا طریق کار نہیں تھا ؟اور خود یہ ممالک سینکڑوں ایٹم بموں کے خالق اور مالک ہیں ،کیا یہ ممالک ساری دنیا کو ڈر اور خوف میں مبتلا رکھنے کے راستے پر نہیں چل رہے ؟ اور دہائیوں بعد ممالک کو زمین بوس کرنے کے بعد ایک جملہ دہرا کر اپنے ان عظیم گناہوں اور نا انصافیوں کی تلافی صرف ایک جملہ سمجھتے ہیں ( سوری ہماری انفارمیشن غلط تھی) ، ‘‘ اپنے مفادات اور خواہشوں کو پورا کرنے کی خاطر کتنے ہی جاندار اور شاندار ممالک کو کھنڈروں میں تبدیل کرنے کے بعد اس ایک جملے سے کیا وہ ممالک پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے ہیں یا جو لاکھوں انسانی جانیں اس بارود میں دھواں ہوجاتی ہیںاس کا حساب اور اس کی قیمت یہی ایک جملہ ہوجاتا ہے ؟یہ ادارہ جس میں تعفن اور سڑاند کے سوا اب کچھ نہیں ،کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ دنیا کی نگہبانی اور بہتری کے لئے بنا تھا، اس لئے اس کا دفن ہونا بھی ایک فطری اور قدرتی عمل ہوگا ۔
[email protected]>