سنڈے مارکٹ ۔۔۔ نام سنتے ہی ڈر اور خوف کی لہر جیسے میرے بدن سے چھوکر نکل گئی ۔ یہاں کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ بھیڑ بھاڑ والے بازاروں میں جانے سے خوف آتا تھا۔ پتا نہیں کب کیا حادثہ ہوجائے ۔گولیاں چلنے اور کہیں بھی بم پھٹنے کے واقعات عام ہورہے تھے۔
لیکن میرا جانا ضروری تھا۔ یہ میرے بابا کا حکم تھا۔ بابا بیس بائیس سال پہلے حج سے ایک ریڈیو سیٹ لائے تھے، جوچندمہینے پہلے خراب ہوگیا۔ بابا کے حکم سے میں نے کئی میک نکس کو دکھایا لیکن یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ سب نے یہی بتایا کہ اس کی کوئی آئی سی(IC) خراب ہوچکی ہے، جو یہاں نہیں مل سکتی ۔ اب یہ ریڈیو کا زمانہ بھی نہیں تھا۔ ٹی وی پر لائیونیوز چینلز کی بھر مار تھی۔بابا سے نیا ریڈیو سیٹ لاکے دینے کی بھی بات کہی۔ لیکن بابا کو کون سمجھائے ۔وہ اسی کو ٹھیک کروانے میں لگے تھے۔ پھر کسی نے ان سے کہہ دیا کہ ایسے ریڈیو سیٹ سنڈے مارکیٹ میں ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔بابا لگاتار چھ دن مجھے یادکراتے رہے کہ اگلی اتوار کو سنڈے مارکیٹ جانا ہے اور وہاں سے ریڈیو سیٹ ٹھیک کراکے لانا ہے۔اتوار آگئی اور بابا میرے سر پر کھڑا۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ اتوار کو دیر تک میرے سونے کی آرزو آرزو ہوکر ہی رہ گئی۔ معمولی ناشتہ کرکے میں ریڈیو سیٹ لے کر سنڈے مارکیٹ کی طرف نکل گیا۔ نزدیکی پارکنگ میںگاڑی لگا کر میں سنڈے بازار میں آگیا۔ ایسے بازاروں میں جانے کا ڈر اپنی جگہ لیکن یہاں آکر مجھے مزا آگیا۔ بھیڑسے بھرا بازار ۔۔۔ سڑک کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ بھی بند۔ ریڈھی والوں اور فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والوں کا شور۔آتے جاتے لوگوں کی بڑھتی تعداد جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے ۔ بازار ایک دم رنگا رنگ لگ رہا تھا۔ مجھے سبھوں کے چہرے خوش اور مسکراتے نظر آرہے تھے ۔ لیکن میں ایک بات پر حیران تھا کہ سنڈے مارکیٹ میں ایسے کم ہی لوگ تھے جو پرانا، سستا یا ٹوٹا پھوٹا سامان بیچتے تھے ۔ زیادہ تر یہاں نئے ساز و سامان سے آراستہ ریڈھیاں اور فٹ پاتھ بھرے تھے۔ میرے مطلب کے کئی چھوٹے موٹے میکینک بھی تھے۔ سب کو بابا کا ریڈیو سیٹ دکھایا لیکن کسی ایک کے پاس بھی اس کا علاج نہیں تھا۔ کچھ لوگ تو ریڈیو سیٹ دیکھ کے ہنس بھی لئے تھے۔ ایک نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا۔
’’ صاحب جی ! یہ کیا سن سنتالیس کی چیز لئے گھومتے پھررہے ہیں آپ۔ کباڑی توپانچ روپئے بھی نہیں دے گا اس کے۔‘‘ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن اپنے غصے پر قابو پا کے اسے کہا ۔
’’ تم اسے ٹھیک کر کے دے دو ۔میں پانچ سو روپئے دے دوں گا ۔ ‘‘ اُس نے پھر سے ریڈیو سیٹ کھولا۔ اسے غور سے دیکھا۔ آخر سر ہلا کر بولا۔
’’ نہیں صاحب جی ۔ میرے بس کا نہیں ہے یہ ۔۔۔‘‘ اس نے ریڈیو سیٹ بند کرکے واپس کردیا۔ میں بڑی ناامیدی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا ، فٹ پاتھ کے بڑے حصے پرقالین بیچنے والوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ میں قر یب گیاتو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک قالین جو میں نے کچھ ہفتہ پہلے شہر کے ایک بڑے شوروم میں دیکھا تھا ، ویسا ہی قالین یہاں فٹ پاتھ پربھی پڑا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہر اصل چیز کی نقل ہمارے شہر میں بھی ملتی ہے۔ پھر بھی میں اسے قریب سے دیکھنے گیا۔
’’ ہاں صاحب جی بولئے ۔ کیا پسند آیا آپ کو۔‘‘
’’ یہ قالین اصلی ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔‘‘
’’ اصلی ہے جناب ۔۔۔ ہم نقلی مال نہیں بیچتے ہیں۔ ویسے بھی اتنے مہنگے قالین کی نقل نہیں بنی ہے ابھی تک ــ‘‘
’’ آپ کے پاس تو ایک ہی پیس ہے یہ ۔ مجھے تو جوڑا چاہئے تھا۔‘‘
’’ وہ فکر نا کریئے آپ صاحب جی۔ اس ڈیزائن میں آپ کو جتنے پیس چاہئیں، مل جائیں گے۔ آپ چاہیں تو پورے گھر کو ڈیکوریٹ کر سکتے ہیں ۔۔۔ اتنے پیس موجود ہیں ہمارے پاس ۔۔۔‘‘
’’ کتنے کا جوڑا ملے گا ۔‘‘ اس نے جو قیمت بتا دی وہ شوروم کی قیمت سے آدھی تھی۔اب تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھاکہ یہ نقلی ہی ہے۔
’’ لیکن یہاں تو آپ کے پاس ایک ہی پیس ہے۔ دوسرا پیس کہاں سے دیں گے۔‘‘
’’ صاحب جی یہ لیجئے ہمارے شوروم کا کارڈ۔ آپ کو یہاں صرف آرڈر بک کرنا ہے۔ مال تو آپ کو شوروم سے ہی ملے گا۔آپ کا آرڈر تو ہم آپ کے گھر بھیج دیں گے۔ ہمارا سسٹم ہے ہوم ڈیلوری کا۔‘‘ سیلزمین کچھ اور بھی کہہ رہاتھالیکن میں کارڈ دیکھ کر ہکابکا رہ گیا تھا۔ یہ اسی شوروم کا کارڈ تھا جہاں سے یہی قالین مجھے اس سے دوگنی قیمت پر مل رہا تھا۔
’’ لیکن شوروم پر تو آپ یہ قالین مہنگا بیچتے ہیں۔‘‘
’’ صاحب جی شوروم کی بات الگ ہے اور یہاں کی بات الگ۔اگر آپ اس قالین کی بکنگ یہاں سنڈے مارکیٹ سے کریں گے تو آپ کو یہی قیمت دینی پڑے گی۔ چاہے آپ کومال کی ڈیلوری کہیں سے بھی ملے۔ ‘‘ میں نے ان کو کچھ رقم ایڈوانس کردی اور مجھے تب ایک اور جھٹکا لگا جب انہوں نے مجھے پیسوں کی رسید بھی اسی شوروم کی تھما دی۔ تو یہ ثابت ہوگیا تھا کہ یہ غریبوں کی مارکیٹ بس نام کی تھی اور قبضہ یہاں پر بھی بڑے بڑے مگر مچھوں کا ہی تھا۔
اب میں کچھ کچھ تھک بھی گیا تھا اور چائے کی بھی سخت طلب ہورہی تھی۔ میں ایک ریسٹورانٹ کے اندر گیا۔ یہاں کافی رش تھا۔ ایک بیرے نے رہنمائی کی اور میں دوسری منزل پر آگیا۔ یہاں بھی اچھی خاصی بھیڑ تھی لیکن مجھے کھڑکی کے پاس ایک کرسی مل ہی گئی ۔ میں نے کرسی پر بیٹھتے ہی سستانے کیلئے تھوڑی دیر آنکھیں بند کرلیں۔ بیرا آگیا، میں نے اسے چائے اور کچھ ہلکا پھلکا لانے کا آرڈر دے دیا۔ چائے آگئی ۔ اچھی چائے تھی۔ میں مزے سے چسکیاں لے کر کھڑکی سے باہر سنڈے مارکیٹ کا نظارہ کرنے لگا۔
یہاں سے فٹ پاتھ پر جو مجھے پہلا آدمی نظر آیا وہ پرانے جوتے بیچتا تھا۔ اس کے قریب جو دو لوگ اور بیٹھے تھے ان کے سامنے مہنگے مال کا اسٹال لگا تھا۔ اور ان کے آگے کئی ریڈھی لگانے والے سستا سامان بیچ رہتے تھے۔ جن میں ایک ریڈھی والا پرانے استعمال شدہ زنانہ کپڑے بیچ رہا تھا۔ اس کے گرد عورتوں اور لڑکیوں کی اچھی خاصی بھیڑ جمع تھی، جو کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھیں۔ شاید کوئی کچھ خریدبھی رہی تھی۔ میری نظر ریڈی والے کی طرف ہی تھی۔ وجہ تھی وہ دو بچیاں جو بہت ہی معصوم اور خوبصورت تھیں۔ ان دو میں جو چھوٹی لڑکی تھی، اس کی مسکر اہٹ بہت پیاری تھی۔ وہ دونوںبار بار ایک رنگین قمیض شلوارہا تھ میں اٹھاتی تھیں ۔ اس کو الٹ پلٹ کردیکھتیں اور اوپر نیچے دیکھ کر واپس رکھ دیتی تھیں۔ پھر کچھ اور کپڑوں کو دیکھ کر ان کی نگاہیں واپس اسی جوڑے پر اٹک جا تی تھیں۔ اب مجھے لگا یہ قمیں شلوار تو ان کو پسندآیا ہے ۔ لیکن یا تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ یہ خرید سکیں یا پھر کپڑے میں کوئی نقص ہے۔ بڑی لڑکی نے آہستہ سے کچھ کہا توچھوٹی لڑکی کی مسکراتی آنکھوں میں تشویش کے سائے لہرانے لگی۔۔۔ میں ابھی کچھ طئے بھی نہیں کرپایا تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا۔ میں نے بس اتنا دیکھا، ہوا میں دھول کے ساتھ انسانی اجزا بھی تیر رہے تھے۔ ان ہی میں وہ خوبصورت اور معصوم چہرہ بھی تھا جس کی کھلی آنکھوں میں اب بھی تشویش کے سائے لہرا رہے تھے۔ یا ایک پرانی قمیض شلوار نہ خرید پانے کی حسرت اس کی آنکھوں میں سمٹ کر آئی تھی۔۔۔ زمین پر آتے آتے وہ اداس آنکھیں بند ہوچکی تھی کہ کھلی رہ گئی تھیں، مجھے نہیں معلوم۔۔۔
اسلا م آباد، کشمیر ،فون نمبر9419734234