اگر بالفرض وادی ٔ کشمیر پورپ کا کوئی خطہ ہوتا اور مسئلہ کشمیر پیچیدہ سے پیچیدہ ترسیا سی تنازعہ بھی ہوتا، تب بھی فریقین چٹکیوں میں مذاکرات کی میز پر مسکراہٹوں اور خوش گفتاریوں کے بیچ حتمی طور حل کرجاتے، فریقین کچھ دو کچھ لو یا کسی اور متفقہ فارمولے پر تصفیہ کر کے قضیہ زمین برسر زمین کے مصداق اس مسئلے سے پنڈ چھڑواتے اور تعمیر و ترقی کی راہیں کھوجنے میں لگ جاتے ، نہ کہ ایک سیاسی مسئلے کوقیامت تک طول دینے کی نیت سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زخم دینے کی دوڑ میں لگ جاتے۔ بدقسمتی سے تنازعہ ٔ کشمیر برصغیر کے اُن دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان لاینحل معمہ بن کر لٹکاہوا ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے ودطرفہ دشمنیوں ، رقابتوں اور مخالفتوں کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہیں مشتر کہ طور بھوک ، افلاس، بیماری ، ناخواندگی اور ہمچو قسم کے جان لیوا مسائل کا سامنا ہے مگر پھر بھی ان بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے دو نوں ملک اپنے ملکی بجٹ کاز یادہ تر حصہ کشمیر کے پس منظر میں صرف دفاعی اخراجات کا اندھا کنواں بھرنے کے لئے ڈالتے جا رہے ہیں ۔ ان کی دشمنی غربت، فاقہ مستی اور جہالت پر مر کوز ہوتی تو برصغیر میں دائمی امن ومفاہمت کی بہاریں اپنی جوبن پر ہوتیں مگر ان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو ان خطوط پر سوچنے کی توفیق ہی نہیں ملتی ۔ ایسے میں کشمیر حل موخر ہوتے ہوتے پلوامہ جیسے المیوں پر منتج ہونا فطری بات ہے ۔ بنابریں اگر کشمیر میں خون ِ ناحق کاتانڈو ناچ بلاناغہ جاری رہے تو اس پر ہند پاک کی تاریخ سے واقف لوگوں کو اچنبھا نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں سرنو پلوامہ کی بدترین خون خواری کی اس کہانی کے سیاہ باب میں محض ایک تازہ اضافہ ہے اور اگر کشمیر حل اسی طرح موخر ہوتا رہا تو نئے پلواموں کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ جنوبی کشمیر پلوامہ کے نصیب سرنو گاؤں میں وردی پوشوں نے دن دھاڑے اَدھ کھلی کلیاں، چڑھتی جوانیاں، خمیدہ کمر والدین کے جوان سہارے ،انڈونیشاء کی ایک کم نصیب بیٹی کا کشمیری سہاگ، کندھوں پر اسکول بستہ لٹکائے کم سن طالب علم کا خون کر کے آنکھ جھپکتے ہی اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا اور اس بستی کو بلا تکلف خونِ آدم سے اس نہلایا ۔ آج اتنے دن گزرنے کے بعد بھی پلوامہ کا ذرہ ذرہ سوگوار ہے ، بلکہ بے غبار سچ یہ ہے کہ کشمیر کے ارض و سماء ، شجر و حجر ، ابر وسحاب ،نسیم ِسحر ، سکوتِ شب ، گردشِ نہار ، نیلگوں آسمان ،سبزہ ٔ زمین پچھلے اٹھائیس سال سے اسی وجوہ سے دل فگار ہیں ۔ خصوصی طور سنہ نوے سے یہاں چہار سُو ماتم ہے ، تعزیتیں ہیں ، نالہ وفغان ہیں، جنازے اور قبریں ہیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ یہ صرف ایک جنوبی کشمیر کی ہی داستان ہے ، نہیں بلکہ وطن کا گوشہ گوشہ ، پیرو جوان، مردو زن غم والم کا تختہ ٔ مشق بنے ہوئے ہیں۔ روز روز کی جھڑپیںاور پھرمظاہرین اور راہ گیروں پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے قیامت ِصغریٰ برپا کرنا اب عملاً فوسرز کاSoPبن چکا ہے ۔نتیجہ یہ کہ کشمیر میں ہلاکتوں اورتباہیوں کا گراف ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہاہے ۔ ایک طرف لوگوں کی زندگیاں چھینی جا رہی ہیں ، دوسری طرف چھرے آنکھوں کی بینائیاں سلب کررہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان سنگین حالات میں کشمیر کی نسل ِنو کی جان کے لالے پڑے ہیں کیونکہ وقت کی تیز رفتار آندھیاں قوم کے مستقبل پر بلا ناغہ ڈاکہ زنیاںکررہی ہیں اورافسپا کے پجاری تاریکیوں میں بھی اور دن کے اُجالوں میں بھی قوم کی کلیوں سمیت مستقبل کی شمعیںیعنی ذہین وفطین اسکالر اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زمین برد کر نے میں مصروف ہیں۔ اس لئے آپ کشمیر میں جابجا مغموم چہرے ، اُداس مائیں ، افسردہ باپ ، بے سہارا بیوائیں ، بے زبان یتیم ، آنسوؤںسے لبریز آنکھیں، بے چین روحیں ، ڈراؤنے دن ، خوف زدہ راتیں ، ستم رسیدہ صبحیں، بے رحم شامیں، اُجڑی بستیاں، ویران بازار، سنسان شہر دیکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگروادی ٔ کشمیر کواب سیر گاہ اور جنت ِارضی سے زیادہ ایک وسیع الرقبہ مقتل بنا دیا گیا ہے۔یہ کوئی اتفاقی اور حادثاتی واقعات کا نتیجہ نہیں بلکہ صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کامنصفانہ اور جمہوریت پسندانہ حل نکالنے کے بجائے آوپریشن آل آوٹ جیسی خون تشنہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے ۔اس وجہ سے وادی مسلسل جھلس رہی ہے ۔ خدا را! انصاف کیجئے اس خطے میں امن کی پروائیاں کیا چلیں جب بھارت کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کشمیر میں افسپائی اہداف کی تشریح کر تے ہوئے جنگ جو ؤں کو ہی قابل ِگردن زنی قرار نہ دیں بلکہ ہر کشمیری کو عسکریت پسندوں کا حمایتی اور بالائی کارکن قرار دیتے ہوں؟ یہ گویااس بات کاٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاشارہ دیا جارہاہے کہ سوئلین آبادی کے خلاف فورسز کی ظلم و زیادتیوں کو قانونی جواز حاصل ہے ۔ اس لئے کشمیری چاہے اپنے جائز حق کے لئے آواز اُٹھائیں یا ہلاکتوںاور تباہ کاریوں پراپنا احتجاج درج کرنے کی کوشش کریں، فوجی نقطہ نگاہ سے اُن کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا عین قانونی کارروائی ہے جو عام حالات میں عسکریت پسندوں کا مقدر ہوتا ہے۔ آرمی سربراہ کی زبانی اس توضیح سے مرکزکے نئے کشمیر پلان کا بخوبی عندیہ ملتا ہے۔ فوجی سربراہ کی اس تشریح کے آئینے میں کشمیر کا ہر وہ فرد ’’دہشت گرد‘‘ شمار ہوتا ہو جو فورسز کارروائیوں پر صدائے احتجاج بلند کر نے کی بھول کرے یا کسی کشمیری کو تہِ تیغ پر کرنے پر ماتم کرے آنسو بہائے ، اُس کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ پلوامہ کے قتل عام نے یہ پیغام ذراساصاف لفظوں میںدیا کہ انسانی آبادیوں اور بستیوں پر آتش و آہن برسانے سے جس کسی کو بے چینی محسوس ہو، جو مقتولین کی تجہیز و تکفین اور جنازوں میں شرکت کا’’جرم‘‘ کرے، جو یہاں کے یتیموں اور بیواؤں کی کسمپرسی پر جودل ملول ہو، جو کوئی رات کی ٹھٹھرتی سردیوں میں بزرگوں اور بچوں کو کریک ڈاون اور تلاشیوں کے بہانے کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور کرنے پر اپنی زبان پر حرفِ شکایت لائے ، جو کوئی نوعمر بچوں تک کو پیلٹ سے بینائی سے محروم کرنے پر واویلا کرتا ہو، وہ فورسز کی نظر میں باغی، قوم د شمن، نقص ِامن کا ذمہ دار مانا جاتاہے۔ ایسے شخص کا وجود فورسز کے لئے ناقابل قبول ہے اور اُس سے موقع محل کے مطابق نپٹنے کے لئے فورسز ہر کسی قاعدے قانون اور جواب دہی سے بالاتر ہیں،البتہ اُن کی کوئی ضرورت ہے تو ٹریگر ہیپی ہونے کی۔ وردی پوش چاہیں تو لوگوں کو تشدد کا شکار بنایں،بندوقوں کے دہانے سوئلین افراد پر کھول کر ا ُن کے سینے چھلنی کردیں،پیلٹ کی بوچھاڑیں کریں ، نوجوانوں پر جیل خانوں کے پھا ٹک کھول دیں۔ اگر اُن حرکات پر جب ایک آدھ بیان دینے کی ضرورت بھی آن پڑے تو بے اعتنائی سے کہا جائے گا: ’’سنگ بازجھڑپ کی جگہ کے پاس خطرے کی ریکھا پار کر گئے تھے۔ ‘‘ اُس پرکوئی اعتراض جتانے کی جرأت کر ے تو گودی میڈیا اُسے چپ کرانے کے لئے چلّاچلّا کر کہے گا یہ سینا کا مورال کم کر نے کی سازش ہے ۔ کیا اس لاپروائی سے نہتے اور معصوم لوگوں کے خلاف بے لگام طاقت کا استعمال کرنا اور اندھادُھند گولیاں برسانا اس امر پر دلالت نہیں کر تا کہ کشمیر میں حالات اور حقائق کے حوالے سے حکومتی موقف کی پشت پر کوئی وزنی دلیل ہے نہ کوئی ٹھوس جواز ،بجز اس کے کہ مر کز فوجی طاقت سے لوگوں کے جذبات ،امنگوں ، خوابوں کو شکست دینے پر عمل پیرا ہے ۔اس تناظر میں ارباب ِ حل وعقد کے سامنے انسانی حقوق کی بات ہی نہیں انسانی جانیں بھی کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ لہٰذا کشمیریوںکو حشرات الارض سمجھ کر اپنے آہنی جوتوں تلے کچل دینے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں آبادیاتی تشخص بگڑ جائے، یہاں خوف اور گھبراہٹ پیدا ہو، یہاں قبرستان کا سا سکوت چھا جائے ،یہاںشہر و دیہات میں سرکاری مظالم اور زیادتیوں کے بل پر فتح پائی جائے ۔ لہٰذا آپریشن آل آوٹ ان معنوں میں کشمیر کاز کی کمر توڑدینے کا پلان ہے اور اس کے باوجود جو لوگ سرینڈر کرنے پرتیار نہ ہوں، توان کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہی ان کا آخری’’ علاج ‘‘جتلایا جارہا ہے ۔ یہ صورت حال آنے والے پارلیمانی انتخابات میں ہندتوا ووٹ بنک کو بُوسٹ دینے کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بھی ہوسکتی ہے۔
بہر صورت پلوامہ کے المیے نے وادی بھرمیں رائے عامہ کو وقتی طور بہت متاثر کیا ، بلکہ سچ یہ ہے بعض انصاف پسندلوگوں نے بیرونِ کشمیر بھی یہاں حقوق البشر کی بگڑتی صورت حال پر اپنی تشویش کا بھر پوراظہار کیا ، ریاست کے مین اسٹریم کہلانے و الے سیاست کاروں کو بھی ’’اپنے لوگوں ‘‘کی طرف بیانات جاری کرنے کی حدتک متوجہ ہونے کی توفیق ملی لیکن یاد رکھئے کہ بہ حیثیت مجموعی ملکی عوام اور عالمی برادری کشمیر کی حقیقی صورت حال اور زمینی حقائق سے یا تو سرے سے نابلد ہیں ،یا لوگ کشمیر کے بارے میں ایک بے بنیاد اورجھوٹی تصویر گودی میڈیا کی وساطت سے ذہن میں بٹھا کر ا ہل کشمیر کا ا صل درد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر مخالف میڈیا کی غلط بیانیوں کی حدیہ ہے کہ کشمیر کے دبے کچلے مظلوم ہی ظالم وقاہر ٹھہرائے جارہے ہیں اور جس بڑے پیمانے پر نہتے ، کمزور اور بے بس لوگوں کو انتقام گیری کا نشانہ بنایا جاتاہے مگراُن پرظلم کے پہاڑ توڑنے و الوں کو دیش بھگت کہا جاتاہے۔ اس حوالے سے مر کز اور فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور ایک ہی لہجے اور ایک ہی زبان میں بات کرتی ہیں ۔ اس لئے جو کوئی اس اند ھیر نگری یہ بتانے کی’’ غلطی یاجرم ‘‘ کرے کہ حقیقت ِکشمیر وہ نہیں جو متعصب میڈیا دنیاکے سامنے لاتا ہے ، تو اس کو بیک زبان دیش دروہی کہا جاتا ہے ۔ جھوٹ پر مبنی اس گورکھ دھندے کے باوجود پچھلی سات دہائیوں سے مرکز کشمیر کی حقیقت کو دنیا کے سامنے بے حجاب ہونے سے نہ روک سکا ۔ وجہ یہ ہے کہ قوم اپنی ناتوانیوں اور کوتاہیوں کے باوجود تا ایں دم پُرامن کشمیر حل کے موقف پر بے تحاشہ قربانیاں دیتے ہوئے قائم و دائم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ1947ء میں یہاں حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کو اربابِ اقتدار نے تمام تکالیف ، اذیتوںاور انتقام گیریوں کا نشانہ بنایا،بعضوں کو جلا وطن کردیا گیا ، سیاسی مخالفین کے منہ میں اُبلتے آلو تک ٹھونس دئے گئے ، یہاں تک کہ شیخ عبداللہ نے رائے شماری کی بائیس سالہ جدوجہد کو سیاسی آوارہ گردی قرار دیا مگر اس کے باوجود لوگ کشمیر کاز سے دستبردار نہ ہوئے ۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سنہ نوے میں عسکریت پسندی کے جواب میں catch and Kill آپریشن اور بعدازاںبد نام زمانہ اخوان کے ہاتھوں قتل و غارت کا مہیب دور شروع ہوا مگر کشمیری قوم کا غا لب حصہ مبنی بر صداقت مطالبے سے دستبردار نہ ہوا بلکہ قربانیاںدے دے کر کشمیر حل کا خواب دیکھتا رہا ۔ دلی کے پالیسی ساز اداروں کی یہ کوشش کہ یہاں کے لوگ ذہنی اورجسمانی تشدد اور زبردست معاشی خسارے سے دوچار ہو کر اپنا یہ سیاسی خواب دیکھنا ہی ترک کریں، آج تک کوئی رنگ نہ لاسکی ۔ بے شک دھن دولت اور کرسی ٔا قتدار کی ہوس میں مبتلا چند سیاست دان عام کشمیریوں کے جذبات کا خوب استحصال کر کے گرگٹ کی طرح سیاسی رنگ بدلتے رہے اور اب بھی بدل سکتے ہیں مگر اُن کی حیثیت کشمیریوں کی اکثریت میں صرف سیاسی جوکروں کی ہے۔ کشمیر کاز کا گلا وقت کا قدآور لیڈر شیخ عبداللہ تک گھونٹ نہ سکا تو اوروں کی کیا بساط ؟ان حالات میں سب سے تکلیف دہ لمحہ یہاں کے عوام کے لئے وہ ہوتا ہے جب حکومت سے باہر اقتدار نواز سیاسی پارٹیاں پلوامہ جیسے المیوں پر اخباروں میں اپنے مذمتی بیانات داغ دیتی ہیں اور سڑکوں پر نکل کر دکھاوے کا احتجاج بھی کرتی ہیں ۔ حالانکہ اقتدار میں آکر یہی پارٹیاں لو گوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہو تی ہیں ۔ ان کا یہ دوغلاپن یہاں کے عام لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مرکز زیادہ سے زیادہ ان ٹولوں سے کشمیر کاز کی dis-service کروانے کا کام وقتاً فووقتاً لے سکتا ہے ، یا اپنی کشمیر پالیسی کا دفاع کرواسکتا ہے مگر کشمیر کو امن، آشتی اور احترام ِ آدمیت کے رنگ میں رنگ کر تنازعے کے سیاسی حل کی راہیں ان سے استوار نہیں کراسکتا۔ کشمیر میں اب ہوچکا ہے ،اب وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیر کا پُر امن اور قابل قبول حل تینوں فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نکالنے کی مخلصانہ کو شش کر یں تاکہ پلوامہ جیسے المیے قصہ ٔ پارینہ بنیں اور کشمیر میں امن ، انصاف اور ترقی کی ہوائیں چلیں۔ بلاشبہ فی الحال پارلیمانی انتخابات تک اس طرح کی کسی پیش رفت کا امکان نہیں مگر مر کز میں جو پارٹی یا سیاسی ا تحاد بر سراقتدار آئے اُسے کشمیر حل کے موخر ہونے کے مضر ات پر ایک سیاسی عزم اور مثبت ذہن کے ساتھ پیش قدمی کرنا ہوگی۔