جموں و کشمیر میں ماحول دوست تھیلے نایاب، تباہ کن بیگ ہر جگہ دستیاب
بلال فرقانی
سرینگر// عالمی پلاسٹک بیگ فری ڈے کے موقع پر جہاں دنیا بھر میں ماحول دوست اقدامات کو فروغ دینے کی بات ہو رہی ہے، وہیں وادی میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال کئی برسوں سے جاری ہے اور پلاسٹک و پالی تھین در آمد کرنے کا ایک مربوط اور منظم کاروبار پر وان چڑھا ہے۔جموں میں قائم پالی تھین اور پلاسٹک بنانے والے کارخانوں سے ہر روز ہزاروں ٹن پالی تھین اور پلاسٹک کی اشیاء وادی پہنچائی جارہی ہے اور سیلز ٹیکس کے نام پر وادی کے ماحولیات کو بر باد کیا جارہا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں مالی سال 2024میں 1.46 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک فضلہ جمع ہوا، جو کہ گزشتہ برس2023 کی نسبت 21 فیصد کا اضافہ ہے۔ ماہرین ماحولیات خبردار کر رہے ہیں کہ پلاسٹک نے نکاسی آب کے نظام کو بری طرح متاثر کر کے جھیلوں اور ندیوں کا دم گھونٹ دیا ہے، جس سے کشمیر کے نازک ماحولیاتی توازن پر سنگین خطرہ منڈلا رہا ہے۔سال 2019 سے لے کر اب تک جموں و کشمیر میں کل 2.25 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کچرا جمع ہو چکا ہے۔ اگرچہ اس میں سے 77,200 ٹن کو ری سائیکل کیا گیا۔ 19.33 ٹن ممنوعہ سنگل یوز پلاسٹک ضبط کیا گیا، لیکن ہر سال تقریباً 51,000 ٹن نیا پلاسٹک پیدا ہو رہا ہے، جس کا ایک بڑا حصہ، تقریباً 31,000 ٹن صرف کشمیر میں، براہ راست جھیلوں اور دریاؤں میں جا رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہناہے کہ ہمالیائی خطے کی مخصوص جغرافیائی ساخت،جہاں نالے اور ندی نالے جھیلوں میں گرتے ہیں،کے سبب پلاسٹک فضلہ بہت تیزی سے ڈل، وْلر اور جہلم جیسے پانی کے بنیادی ذخائر تک پہنچتا ہے۔معروف ماحولیاتی کارکن اور کشمیر اکنامک الائنس کے چیئرمین محمد یوسف چاپری نے پلاسٹک آلودگی کو سیاحت کیلئے مہلک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی پلاسٹک بیگ جھیل ڈل میں تیرتا ہوا نظر آتا ہے، وہ اگلے دن کیلئے ایک سیاح کم ہونے کا اشارہ ہے۔
اْن کا کہنا تھا کہ دنیا کشمیر کو ایک خوبصورت، قدرتی صحت گاہ کے طور پر دیکھتی ہے، مگر جب سیاح جھیلوں میں تیرتے کچرے کو دیکھتے ہیں تو وہ واپسی کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر جیسے نازک خطے میں خوبصورتی کی حفاظت کیلئے اتنا ہی نازک اور محتاط طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اْن کے بقول، ’’چیلنج یہ ہے کہ وادی کی نازک خوبصورتی کے ساتھ ایک مضبوط شہری شعور پیدا کیا جائے۔اس سے پہلے کہ اگلا پلاسٹک سیلاب سب کچھ بہا لے جائے‘‘۔ماہر قانون و ماحولیات ایڈوکیٹ سلیمان سلاریہ، جو جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رہ چکے ہیں، نے کہا کہ کشمیر کی جھیلیں’’واقعی سانسیں بند کر رہی ہیں‘‘ اور اگر موجودہ حالات برقرار رہے، تو ماحولیاتی تباہی ناگزیر ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر پولی تھین بیگ جو کسی نالے کے ذریعے گزر جاتا ہے، وہ بالآخر ڈل یا جہلم میں پہنچتا ہے اور وہاں صدیوں تک موجود رہتا ہے۔سلاریہ نے مزید کہا کہ جب تک میونسپل ادارے 100 فیصد گھر گھر علیحدہ کوڑا جمع کرنے کا نظام نہیں اپناتے، اس تباہی کا اداراک نہیں کیا جاسکتا اور اس کیلئے عدلیہ کو سخت مداخلت کرنا پڑے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں پلاسٹک آلودگی کا آغاز 1980 کی دہائی کے بعد زیادہ ہوا، جب جوٹ اور اخبار و کاغذسے بنے تھیلوں کی جگہ سستے پولی تھین بیگوں نے لے لی۔ جموں میں پلاسٹک فیکٹریوں کے قیام نے اس سلسلے کو صنعتی شکل دی، جس کے نتائج آج وادی بھگت رہی ہے۔چاپری نے اس تبدیلی کو ’’ماحولیاتی لعنت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تباہ کن تجارتی فیصلہ تھا جس نے قدرتی ماحول کی جڑیں ہلا دیں۔سابق قانون ساز اشوک شرما، جو قانون سازیہ کی ماحولیاتی کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ کہ جھیل ڈل کی سطح 22 مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 18 مربع کلومیٹر تک سکڑ چکی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک آلودگی اور پانی میں نباتاتی مواد کا غیر معمولی بڑھاؤ (یوٹرو فیکیشن) ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جموں و کشمیر میں اس وقت 43 پلاسٹک فضلہ مینجمنٹ یونٹس اور 32 منرل ریکوری مراکز کام کر رہے ہیں، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ مسئلہ کا حل صرف ری سائیکلنگ نہیں بلکہ مکمل خاتمہ ہے۔انہوں نے کئی اہم اقدامات کی سفارش کی ہے، جن میں 1989 سے پہلے کے جوٹ اور کاغذی تھیلوں کے نظام کی بحالی، کم مائیکرون بیگوں پر سخت بارڈر چیکنگ، تعلیمی اداروں میں سالانہ کچرا آڈٹ، نالوں کی نقشہ سازی کے ساتھ’ٹریپ باسکٹس‘ کی تنصیب، اور ہر میونسپل ادارے کی ماہانہ فضلہ رپورٹ شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہم شہری سطح پر جواب دہی اور نگرانی کو مؤثر نہیں بنائیں گے، تب تک پلاسٹک کا عفریت وادی کو نگلتا رہے گا۔