عظیم النساء صدیقہ
’’ایک اندھیرا کمرہ، ہاتھوں میں ایک تصویر اور آنکھوں میں اشک پشیمانی ‘‘
صبح چار بجے کا وقت جب سبھی لوگ گہری نیند میں تھے اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ دروازے پر کسی نے دستک دی۔
مولوی صاحب نے جب دروازہ کھولا تو سامنے ان کا وہی نکما آوارہ بیٹا سہیل تھا جو رات کے اس پہر گھر واپس آیا تھا۔ یہ سہیل کا روز کا معمول تھا۔ رات دیر سے گھر لوٹنا اور دن میں سورج سر پر آنے تک سوئے رہنا ۔ مولوی صاحب نے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی اختیار کر تے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
مولوی صاحب مسجد کے خدمت گذار تھے اور بچوں کو قرآن و حدیث سکھاتے تھے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ مسجد کی خدمت ہی تھی جس سے ان کے گھر کا گذارا ہو جاتا تھا ۔ ان کے دو بچے سہیل اور رقیہ تھے، ان کی بیوی حمیدہ بیگم اکثر بیمار رہتی تھی۔ مولوی صاحب بیوی اور بیٹی کی فکر میں دن گذاررہے تھے ۔
ان کا بیٹا سہیل نہایت بدتمیز نالائق اور آوارہ قسم کا تھا۔ اسے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ تھا ۔ گھومنا پھرنا اور دوستوں کے ساتھ مٹر گشتی کرنا اس کا سب سے بڑا ہنر تھا ۔ اکثر مولوی صاحب ظہر کی نماز اد ا کر کے گھر آتے توسہیل برآمدے میں نیند سے جا گ کر انگڑائیاں لے رہا ہوتا تھا جسے دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جا تے اور کہتے ۔۔۔۔
’’ آدھا دن ڈھل چکا ہے اور تمہاری آنکھ اب کھلی ہے۔ پڑھائی لکھائی تو تم سے ہوتی نہیں بہت منتیں کر کے اپنے دوست کی دکان پر تمہیں نوکری لگوائی اور تم اپنے نکمے پن کی وجہ سے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ‘‘۔
سہیل نے جواب دیا’’ اسے کوئی نوکری کہتے ہیں وہ مجھ سے اپنی دکان کی صفائی کر واتا اورسہیل نوکروں والے کام نہیں کرتا، اس نے مجھے نہیں نکالا بلکہ میں نے خود ہی نوکری چھوڑ دی۔‘‘
مولوی صاحب ’’ تو آپ بیکار بیٹھو گے گھر میں، ماں بیمار ہے بہن کی شادی کرنی ہے ۔ تمہیں کوئی فکر نہیں تم اپنی ذمہ داری کب سمجھو گے ۔ نادانیاں چھوڑ دو سہیل انسان دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے نوکر بھی بن جاتا ہے ‘‘۔
سہیل:۔ ’’تو کیا آپ کو میرے گھر میں رہنے پر بھی اعتراض ہے ؟ تو ٹھیک ہے میں آج سے آپ کے گھر میں نہیں رہو نگا‘‘۔
اتنے میں کچھ لوگ مولوی صاحب کو بلانے آتے ہیں اور وہ ان کے ہمراہ چلے جاتے ہیں اورسہیل اسی بے فکری سے برآمد ے میں آرام سے بیٹھ جا تا ہے جیسے راجہ اپنے تخت پر بیٹھتا ہے ۔ رقیہ نے سہیل کے لئے کھانا لگایا اور خود سامنے بیٹھ گئی سہیل نے کہا ’’ کیا بات ہے ‘‘۔ رقیہ ۔۔۔بھائی بابا کو فکر ہے آپ کے لئے وہ پریشان رہتے ہیں ۔ تھوڑی بہت تنخواہ مسجد کمیٹی سے ملتی ہے اور تھوڑا بہت بچوں کو قرآن سکھا کر کمالیتے ہیں جس سے ہمارا گھر کا خرچ چل رہا ہے ۔ اگر آپ بھی بابا کا ساتھ دیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔‘‘
سہیل :انہیں کوئی خوشی نہیں ہو گی، انہیں ہمیشہ مجھ سے شکا یت ہی رہتی ہے۔ میں نے ان سے ایک موٹرسائیکل دلانے کو کہا تھا تاکہ میں شہر جا کر کچھ کام کر سکوں ۔ اس گائوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ اتنا ساکام تو کیا نہیں اور نالائق نکما کا طعنہ دیتے رہتے ہیں، اب بندہ کر ے تو کرے کیا؟۔
اگلے دن مولوی صاحب جب مسجد سے نکل رہے تھے تو کچھ آوازیں انہیں سنائی دیں۔ لو گ انہیں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک شخص کہہ رہا تھا ’’ ارے بھائی مولوی صاحب تو بڑے نیک آدمی ہیں پو رے گائوں کو اچھی باتیں سکھا تے ہیں پر خو دکے لڑکے کو سدھار نہیں سکے ۔ آوارہ سا پھر تا ہے۔ سنا ہے آجکل لڑکیوں کو بھی تنگ کر نے لگا ہے۔ خدا بخش دے ایسی اولاد سے‘‘۔
مولوی صاحب کے دل پر یہ باتیں تیر کی طرح پیوست ہو رہی تھی۔ انہوں نے سہیل کے لئے موٹر سائیکل خریدی اور اسکی چابی دیتے ہوئے اس سے کہا کہ’’ میں اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری خواہش کو پوری کر رہا ہوں اور تم سے اب یہ امید کر تا ہوں کہ تم راہ راست پر آکر میری تربیت کو یوں پائمال نہ کر و اور شہر جا کر چھوٹی موٹی ہی سہی ڈھنگ کی نوکری تلاش کر و تاکہ تمہاری زندگی سدھر سکے‘‘۔
مگرسہیل شہر جا کر بھی نہ سدھر ا۔وہی شوق، وہی نکما پن اور مولوی صاحب سے پیسوں کا تقاضا ۔۔۔مولوی صاحب بہت خوددار اور عزت دار شخص تھے، لوگوں کی باتیں انہیں بری طرح سے کھا رہی تھیں۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے کہ ان کے بیٹے کی عادتیں اب بھی تبدیل نہیں ہو پارہی تھیں ، جس کے صدمے میں وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سہیل کو ایک تار ملا اور وہ فوراً بھا گا بھا گا آگیا ۔ والد کے اس طرح اچانک گزرجانے پر وہ بھی غمگین تھا۔ شہر کی ٹھوکروںنے اسے یہ احساس دلادیا تھا کہ باپ کا سایہ اس کے لئے جنت سے کم نہ تھا ۔
بھائی کو غمگین دیکھ کر رقیہ نے کہا ۔۔۔’’ بھا ئی ۔بابا کو آپ کا ہی غم کھا گیا ۔ وہ آپ کے بارے میں ہی سوچتے رہتے تھے۔
سہیل کو یہ باتیں کانٹوں کی طرح چبھ رہی تھیں۔ دل ہی دل میں خود کو قصو روار اور شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔ اس پر بہن کا یہ انکشاف اسے پہاڑ کی مانند لگ رہا تھا۔
اتنے میں گائوں کے زمیندار نے اسے اپنے نوکر کے ذریعہ بلا بھیجا۔ سہیل جب اس سے ملنے گیا تو وہ زمیندار کہنے لگا ۔۔۔۔’’ تمہارے والد نے موٹر سائیکل خرید نے کے لئے میرے پاس تمہارا گھر گروی رکھ دیا تھا اور وہ اس کو چھڑانے کے لئے دن رات محنت کر تے میرے گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتے اور گاڑیاں صاف کیا کر تے تھے‘‘۔
اتنا سننا تھا کہ سہیل پشیمانی کے گڑھے میں دھنستا گیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اسے باربار اپنا وہ جملہ یاد آرہا تھا جو اس نے اپنے والد سے کہا تھا ۔۔۔’’ کہ سہیل نوکروں والے کام نہیں کر تا‘۔
مگر آج اس کا باپ اسے راجہ بنانے کے لئے خود نوکر بن گیا تھا۔ کیا یہ اچھی بات تھی؟ نہیں نہیں وہ آئینہ میں خود کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا۔ اس کے دامن میں اب پشیمانی کے سوا کچھ نہ تھا۔
���
متعلم یم ۔اے میقات چہارم جامعہ گلبرگہ