بوڑھے اور گدھ کی علامتوں کا سہارا لے کر افسانہ نگار نے آج اور کل بلکہ آنے والے زمانے کی صورت حال پر پیشن گوئیاں کی ہیں کہ آنے والی نسل کے پاس ترقی کے سارے سامان میسر ہوں گے لیکن پیار ، محبت ، اخوت اور خلوص سے محروم ہوں گے۔افسانے سے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں:۔
’’ میں کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہوں ۔ جواب ؟۔۔۔۔ کئی جواب ہیں میرے پاس۔ میرے پاس ترقی ہے۔کمپوٹر ہے۔ منگل اور جوپیٹر کا پاس پورٹ ہے۔ ہائیڈروجن بم اور رشوت ہے۔میکانیکی خدمت گار ہے۔ مصنوعی دل اور گردے ہیں۔ پلاسٹک کا گلاب اور اصلی کینسر ہے۔ جواب ہی جواب ہیں میرے پاس ۔‘‘
’’ مسلسل کانگڑی تاپتے تاپتے اس بوڑھے ملاح کی ٹانگوں اور جانگھوں پر ملگجے لال رنگ کی پیڑیاں جم گئی ہیں اور ان کی طرف دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے ان گنت زخموں پر وقت کے بے رحم کالے ہاتھوں کی اُنگلیوں کے نشان ثبت ہوں۔‘‘(کانچ کی دنیا ۔ پشکر ناتھ ۔ ص ۱۴۴ ، ۱۳۹)
’’ غبارے کی واپسی ‘‘ پشکر ناتھؔ کا اور ایک عمدہ علامتی افسانہ ہے۔ افسانے کا موضوع دورِ حاضر کے انسان کی بے سمت زندگی کی بے سمتی ، ذہنی انتشار ، غیر یقینیت اور احساسِ کرب ہے۔یہ افسانہ صرف ایک بچے کی بے بسی کی داستان ہی نہیں ہے بلکہ یہ اُن ہزاروں لاکھوں انسانوں کے المیے کی داستان ہے جو آج کے دور میں تنہائی کا کرب سہتے ہیں۔افسانے میں غبارہ انسان کی ازلی معصومیت اور تلاشِ انبساط کا علامتی اظہار ہے، جس کا انجام اب افسردگی و مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ افسانہ ’’ شہر بے چراغ ‘‘ میں بھی نفسا نفسی ، دوڑ بھاگ ، رشتوں کی عظمت کا ٹوٹتا ہوا تقدس ، برق رفتار مادی کشاکش اور بے چینی جیسے عوامل کا نفسیاتی تجزیہ اور علامتی اظہار پا یا جاتا ہے۔اسی طرح کہانی ’’ ہراس ‘‘ میں دورِ حاضر کے انسان کی اُلجھنوں کا المیہ بیان کیا گیا ہے جو اپنے کھوئے ہوئے خوابوں کی تلاش میںگھر سے نکلتا ہے ۔ لیکن شہر کی جس گلی میں بھی وہ پہنچ جاتا ہے اسے لالچ اور خود غرضی کے آسیوں کے سائیے اپنی چاروں جانب لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں، جو اُسے جسم کا سارا گوشت نوچ کر ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:۔
صرف ہڈیوں کا ایک پنجر ۔۔۔۔ میں بہت دیر تک آئینے کے سامنے کھڑا اپنے پنجرے کو دیکھتا رہا۔۔۔ آو ! تمہیں کسی میڈیکل کالج میں چھوڑ آتا ہوں ۔۔۔ کم از کم تجربوں کے کام تو آؤ گے۔‘‘ ۵؎ (کہانی ’’ ہراس ‘‘ ۔ پشکر ناتھ ص )
پشکر ناتھؔ نے اپنی کہانیوں کا تانا بانا اپنے آس پاس میں ہی تلاش کیا۔ انہوں نے چن چن کر اپنے معاشرے اور اپنی سوسائٹی سے کرید کرید کر اپنی کہانیوں کے پلاٹ ڈوھونڈ نکالے اور ان پر ماہرانہ چابکدستی سے قلم اُٹھایا۔ ان کی کہانیوں میں فکر و فلسفے کی جولانی بھی ہے اور بالغ النظری بھی، احوال و اقوال کی ہم آہنگی ربط بھی ہے اور حقیقت نگاری کی سوچ بھی، کردار نگاری پر انہیں عبور بھی ہے اور ہر کردار کی نفسیات سے آگاہی بھی ، عصری زندگی اور سماج کی ترجمانی بھی ہے اور ندرت بیان و اظہار بھی ہے۔ان کے افسانے کھوکھلے ، بے جان اور بے اعتدالی کے شکار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ مبالغہ آرائی یا پھر تصنع کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ان کے افسانے قاری کے شعور و ذہن کو دیر پا تاثیر سے ہمکنار کرتے ہی ہیں ان کے جذبات و احساسات میں بھی ایک ارتعاش سا پیدا کردیتے ہیں۔وہ روایت کے علمبردار بھی تھے اور ارتقاء کے شیدائی بھی، انہوں نے اپنے افسانے ’’ گالی ‘‘ میں محنتی جیسی غریب اور مفلوک الحال کردار کو متعارف کر کے اس کی بے بسی اور پریشانیوں پر سے پردہ اٹھایا۔ ’’ حال دل ‘‘ میں گوبندو لجھہ کی نفسیات کا ایک ماہر ِ نفسیات کی طرح ہی بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔’’ نروان ‘‘ کی آنجو اور ’’ پردہ نشین ‘‘ کی زینب کے موہوم سے جذبات و احساسات کا خلاصہ کیا ہے۔
’عش کا چاند اندھیرا ‘‘ پشکر ناتھؔ کے طویل تخلیقی سفر کا ایک سنگ میل ہے۔اکثر افسانوں میں عمل اور فکر کا دائرہ اگرچہ وہی ہے جو اس سے پہلے کے افسانوں کا تھا لیکن اب قلم کار کے فکروفن میں گہرائی آگئی ہے۔اب وہ افسانے کی تکنیک کی تمام نزاکتوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں۔اب ان کے افسانوں میں شعور اور احساس کی پختگی ملتی ہے ۔ اب وہ عصری آگہی ، اعصابی تناؤ کی شدت اور معاشرے کی بے چینی اور بے حسی کا نفسیاتی اور فن کارانہ تجزیہ کرتے ہیں ۔مجموعے میں شامل افسانے کسی خاص موضوع یا کسی خاص طبقہ یا کسی خاص مسئلے کو پیش نہیں کرتے بلکہ یہ افسانے مختلف موضوعات کے ارد گرد گھومتے ہیں۔’’عش کا چاند اندھیرا ‘‘ افسانے سے درج ذیل اقتباس افسانہ نگار کے عمیق مشاہدے اور مطالعے کا غماز ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:۔
’’ پہلے ڈاکو چنبل کی گھاٹیوں رہا کرتے تھے۔اب ڈاکو نئے چہرے اور نئی پوشاکیں پہن کر تاج انٹر کا نٹی نینٹل یا اوبرائے شیراٹن کے شیش محلوں میں رہتے ہیں اور وہیں دھندا کرتے ہیں۔ اب حاکم کھدری ، کی سفید پوشاکیں پہن کر دیسی انجینئر کی بنائی ہوئی چودہ منزلہ بلڈنگ کی بلندی سے ان گنت لوگوں کے کپڑے اتار کر نئے وعدے دیتے ہیں۔‘‘
(شیرازہ ۔ پشکر ناتھ نمبر ص ۵۵)
پشکر ناتھ کے افسانوں میں دیہاتی فضا اور دیہات کے سادہ لوح عوام کی زندگی کے مسائل جلوہ گر ہیں۔ اگر چہ ان کے اکثر افسانوں میں شہری زندگی اور عالمِ انسانیت کے مسائل کو نئی نئی تکنیک سے پیش کیا گیا ہے۔لیکن پھر بھی ان کے چند ایک افسانوں میں دیہاتوں کی ہلکی پھلکی جھلکیاں ملتی ہیں۔’’ نوری بھی ناری بھی ‘‘ ’’ دل کی بستی ‘‘ ’’ ٹراوٹ مچھلی ‘‘ ’’ شہ رگ سے دور ‘‘ اور ’’ تیرا آنچل میرا دامن ‘‘ وغیرہ اسی طرح کے دوسرے افسانے ہیں جن میں دیہاتی فضا اور کہیں دیہاتیوں میں پلے ہوئے لوگوں کے انداز گفتگو کی جھلکیاں نمودار ہوتی ہیں۔ان کی اکثر کہانیوں میں کشمیر کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی زندگی کے ساتھ ساتھ کشمیری تہذیب و ثقافت کی عکاسی بھی ملتی ہیں۔اس اس ضمن میں ’’ جوڑا ابابیلوں ‘‘ ’’ ایک بوند زہر ‘‘ ’’ درد کا مارا‘‘ ’’پل نمبر صفر کے گدھ ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ افسانوں میں کشمیری زندگی کا رہن سہن ، ان کی تہذیب ، عادات و اطوار ، یہاں کی بدلتی رتوں ، موسمی پھلوں اور پھولوں کی خشبو اور فطری مناظر کے رنگوں اور یہاں کے صحت افزا مقامات کے عکاسی ملتی ہیں۔پشکر ناتھؔ کا انداز بیان خطیبانہ تھا ۔ وہ الفاظ کی نشست و برخاست اور مقصد کی وضاحت پر زیادہ توجہ صرف کرتے تھے۔ان کی زبان صاف ، سادہ اور سلیس تھی۔اظہار بیان میں نفاست اور شائستگی تھی۔ تشبیہات اور استعارات سے بھی کام لیتے تھے۔ادبی زندگی کے آخری مرحلے میں ایسی کہانیاں بھی لکھی ہیں جن میں ابہام ، علائم ، تجریدیت اور جدید کہانی کو بیشتر خصوصیات کو شعوری طور پر اپنانے کی کوشش کی ہے۔
الغرض پشکر ناتھؔ ایک سلجھے ہوئے انسان اور باشعور ادیب تھے۔اُن کا تجربہ کافی وسیع اور مشاہدہ بڑا گہرا تھا۔ انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بدولت اپنے افسانوں کا تانا بانا تیار کر کے انھیں فن کی کسوٹی پر رکھ کر انجام سے ہمکنار کیا۔وہ کسی ادبی تحریک یا کسی خاص نظریے سے نہ تو متاثر تھے اور نہ ہی اُس کے مبلّغ ۔ وہ ادب میں آزادی اور آزاد فکری کے قائل تھے اور یہی آزادانہ روِش اُن کے فن کی سب سے بڑی سچائی اور پہنچان ہے۔اُن کے افسانوں کے کردار اسی ہماری دنیا اور ہمارے گردوپیش کے جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے انسان ہیں، جن کے حیات اور کائنات سے متعلق معاملات اور مسائل کو پشکر ناتھؔ نے افسانہ اور ڈرامہ کی صورت میں قارئین کے سامنے انتہائی فن کارانہ چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ان کی کہانیوں میں بدلتے ہوئے زمانے کے رحجانات ، خارج سے باطن کی طرف رجعت اور عصرِ حاضر کے انسان کی بے سروسامنی کے حوالے سے ایک جدّت آمیز پختہ فکر ، علامتی انداز بیان ملتا ہے، جو ان کی کہانیوں کو ادب ِ عالیہ سے ہمکنار کرنے کی سعی کا عندیہ دیتا ہے۔
(ختم شد)
رابطہ :ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف میسور ( کرناٹک)