افسانہ نویس کا کام صرف افسانہ کے وجود تک ہی محدود نہیںہوتا بلکہ اپنی فکری اور عصری بصیرت کی نمایاں جھلک اپنی تخلیق میں پیش کرنا بھی اس کی اہم ذمہ داری ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب افسانہ نگار کو زندگی اور اس کے مسائل کا قریبی مشاہدہ ہو ۔انسان کے سماجی مسائل سے متعلق اس کا نقط ء نظر دو ٹوک ہو ۔اردو ادب میں ابتداء سے ہی سماج کی کارفرمائی رہی ہے، اس کی ابتدا ء ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں انسانی زندگی مسائل اور مشکلات سے گھری ہوئی تھی ۔اردو ادب میں افسانہ نگاروں کی بڑی تعداد نے سماجی افسانوں کی تخلیق کی۔ انہوں نے سماجی نابرابری ، ذات پات کی تفریق ، چھوت چھات ، رشوت ستائی ، معاشرتی انتشار ، غربت و افلاس ، زمینداری اور جاگیردارنہ نظام ، فرقہ واریت وغیرہ جیسے سماجی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔چونکہ افسانہ نگار سماج کا فرد ہوتا ہے، اور وہ سماج کے حالات و واقعات سے الگ نہیں رہ سکتا اور اس کی تیز فہمی باقی لوگوں سے مختلف ہوتی ہے ۔لہٰذا اردو افسانہ نگاروں نے سماجی مسائل پر دلکش انداز اور فن کارانہ مہارت سے اپنا حقیقت نگار قلم اُٹھایا اور اپنے افسانوں میں سماجی مسائل کو اجاگر کرنا شروع کیا ۔چونکہ عورت سماج کا ایک اہم حصّہ ہے۔ ابتداء میں عورت کو وہ سماجی رتبہ نہیں مل رہا تھا جس کی وہ حق دار تھی۔ عورتیں بھی شروع سے ہی سماجی مسائل سے دوچار رہی تھیں۔ لہٰذا افسانہ نگاروں نے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے مسائل پر بھی اپنا قلم اُٹھایا ۔ پریم چند ؔ نے اس حوالے سے ہراول دستے کا کام کیا ۔
اردو افسانہ کی روایت ہی سماج رہا ہے۔پریم چندؔ کی نظر میں ہندوستانی سماج اور خاص طور پر پسماندہ دیہی سماج پر بہت گہری رہی ہے۔انہوں نے ایسے افسانے تحریر کیے جن میں عصری ہندوستانی سماج کی تصویر صاف جھلکتی ہے۔ان افسانوں میں انسانیت کے دکھ بھی ہیں اور آرام کی جھلکیاں بھی۔مسائل کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی کیونکہ پریم چندؔ کی حیثیت ایک سماجی مصلح بھی رہی ہے اور انہوں نے بغیر ڈر کے ذات پات جیسے مسئلے کو ایک مسلسل جہدو جہد کی حیثیت دی۔اُن کے اکثر افسانے ذات پات اور اس سے متعلق معاشی پسماندگی کے مسائل پر مشتمل ہیں۔ مغربی تہذیب کے پوشیدہ اثرات سے پریم چندؔ خوب واقف تھے۔مغربی تہذیب کو ہندوستان کے گھروں میں خود کشی سے کم تر نہ سمجھتے تھے۔ان کے افسانوں میں مشرقی خاتون کا تصور ملتا ہے۔ گھریلو زندگی میں عورتوں کے ساتھ انصافی اور سختی کو وہ بڑا عیب مانتے تھے۔وہ عورت کے ساتھ انصاف چاہتے تھے۔ہاں بد کردار عورت کے ساتھ ان کی ہمدردی نہیں رہتی۔
افسانہ ’’ مس پدما ‘‘ پریم چندؔ کا شاہ کار افسانہ ہے۔افسانہ بیوہ ماں کی دو ایسی لڑکیوں کی کہانی ہے جو مغربی تہذیب سے کافی متاثر ہیں۔ ڈاکٹر جھلا جو رتنا کا شوہر ہوتا ہے لیکن شادی کے کچھ مدت بعد اپنی آزاد روی کے سبب وہ رتنا کی زندگی کی رنگینی چھین لیتا ہے۔رتنا کی چھوٹی بہن مس پدما اس کی قربت، اس کے کردار کی سطیحت کو اُجاگر کرتی ہے۔آخر کار رتنا کو طلاق دے کر بے غیرت مس پدما اسے بغیر شادی کے ہی ازدواجی زندگی بسر کرنے لگتی ہے۔پھر جھلا مس پدما کو اس وقت چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے جب وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔رتنا کے دل میں مرضی کی غلام اس لیے پیدا ہوا کہ مشرقی تہذیب جس چیز کو شوہر کی فرمابرداری کا نام دیتی ہے ،اسی کو مغربی تہذیب غلامی کا پھانسی کا پھندا مانتی ہے۔اسی تہذیبی تصادم کا بدلہ رتنا کو اُٹھانا پڑا۔مس پدما بغیر کوئی عبرت لیے اپنی بہن کے پہلے شوہر سے بغیر شادی کے ہی ازدواجی زندگی بسر کرنے لگی ۔یہ رشتہ ہوس کاری پر مبنی تھا ۔اس رشتے میں خلوص و ایثار کا کوئی نشان نہ تھا ۔مس پدما جھلا کو اپنی کمائی سے پالتی ہے پھر بھی جھلا اس کی محبت کی کوئی قدر نہیں کرتا ۔اس کہانی میں مس پدما کے برعکس رتنا کا کردار محبت آمیز اور سلجھا ہوا نظر آتا ہے۔اس کے برعکس جھلا کے کردار میں ڈھیلاپن ہے کیونکہ جو شخص دوسروں کی کمائی پر زندگی بسر کرتا ہو اور پھر وہ بے غیرتی سے مصیبتیں دیں تو اس کے کردار میں صرف دھوکہ کے سوا کچھ اور نہیں مل سکتا ۔
اسی طرح ’’ بدنصیب ماں ‘‘ میں بھی بیوہ کی درد بھری فریاد ہے لیکن یہ بیوہ غیر کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے لڑکوں کے ظلم کا شکارہے۔پھول متی پنڈت اجو دھیا ناتھ کی بیوہ ہے ۔لڑکوں کی شادی ہوگئی ۔ صرف ایک بیٹی ’’ کمد‘‘ کی شادی باقی تھی۔بھائیوں نے بچت کی لالچ میں اس کی شادی عمر رسیدہ شخص سے کر دی۔بہن کی خوشی رنج وغم میں بدل دی اور ماں گھریلو کام کاج ایک نوکرانی کی طرح کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ماں کو ستانے کے واسطے سب بھائیوں کے دل میں عزم تھا ۔افسوس کی بات یہ تھی کی کسی ایک بھائی کے دل میں بھی فرمابرداری کا جذبہ پیدا نہ ہو سکا ۔اتنا ہی نہیں وراثت کے سلسلے میں بھی ماں سے لڑائی پر اترتے ہیں اور ایک بیٹا وراثت کے سلسلے میں اپنی ماں سے سخت لہجے میں کیا کہتا ہے:’’ اُما : قانون یہی ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد ساری جائیداد بیٹوں کی ہوجاتی ہے، ماں کا حق صرف گذارہ لینے کا ہے ۔۔۔ (بدنصیب ماں کی کہانی میں بیواؤں کے ساتھ ناانصافی ، معاشی استحصال ، بے جوڑ شادی وغیرہ جیسے مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔
پریم چندؔ کے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جن میں سماجی بے قدری جیسے موضوعات ملتے ہیں ۔ ’’ حسن و شباب ‘‘ ایک طوائف زادی اور ایک ہریجن تعلیم یافتہ نو جوان کی داستان محبت کی کہانی ہے جو شادی پر خوشی سے تیار ہے۔چمار بھگت رام کے والدین سماج میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اپنے بیٹے کو طوائف زادی لڑکی سے شادی کے لیے انکار کرتے ہیں ۔یہ افسانہ طوائف کی سماجی بے قدری کے ساتھ ساتھ ذات پات کی تصویر کشی پیش کرتا ہے۔بھگت رام کا کردار اعلی ظرفی کا ثبوت دیتا ہے کیونکہ وہ طوائف زادی لڑکی سے شادی کے لیے تیار ہے ۔سردھا کا کردار اگرچہ طوائف زادی کا کردار ہے لیکن اس کی ماں اس کو ناجائز پیشے سے دور رکھنا چاہتی ہے ۔ توہم پرستی ، ذات پات کی کشمکش اور خون کی پاکیزگی کی تلاش میں ڈوبا ہوا یہ افسانہ جذباتی محبت کا آئینہ دار ہے۔افسانہ کی پوری فضا طوائف کی دوبارہ با عزت سماج میں واپسی کی خواہش چھائی ہوئی ہے۔
افسانہ ’’ مندر ‘‘ میں ایک ایسی اچھوت عورت کی کہانی ہے جو اپنے قریب المرگ بچے کی زندگی کو بچانے کی آرزو میں ٹھاکر دوارہ کے دیوتا کا قدم چھو کر دان دینا چاہتی ہے لیکن پجاری اس وجہ سے روکتا ہے کی اس چمارن کے چھونے سے دیوتا ناپاک ہوجائیں گے۔جیسے تیسے سکھیا مندر پہنچتی ہے ۔ کافی رات گزرنے کے بعد جب اس کو لگا کہ پجاری سو گئے ہوں گے تو بیمار بچے کو گود میں لے کر مندر میں اس لیے داخل ہو جاتی ہے تاکہ دیوتا کے درشن سے اس کا بچہ زندہ رہ جائے ۔جوں ہی سکھیا بند تالے کو توڑ ڈالتی ہے تو پجاری جاگ جاتا ہے اور وہ شور مچاتا ہے جس کی وجہ سے سارے لوگ جمع ہوئے اور سکھیا کو مارنے لگے جس کی وجہ سے سکھیا کے ساتھ ساتھ بچہ بھی مرجاتاہے۔
افسانہ کا آخری حصہ نازک انسانی جذبات سے بھر پور ہے۔سکھیا نسوانی کرداروں میں اپنے بے مثال جذبہ مادری کے لیے خاص حیثیت کی حامل ہے۔وہ اپنی جان تو گنوا دیتی ہیں مگر پجاری اور مذہبی تنگ نظر طبقے کے سامنے ہار نہیں مانتی ۔ وقتی طور سے وہ بے یارو مدد گار نظر آتی ہے لیکن قاری کی ذہنی و فکری حمایت اس کے ساتھ رہتی ہے ۔
’’ بڑے گھر کی بیٹی ‘‘ ’’ کفن ‘‘ ’’ سوا سیر گیہوں ‘‘ ’’ زادِراہ ‘‘ ’’ بیٹی کا دھن ‘‘ ’’ نجات ‘‘ ’’ خون سفید ‘‘ ’’ دودھ کی قیمت ‘‘ وغیرہ ایسے مشہور افسانے ہیں جن میں پریم چند ؔ نے عورتوں کے مسائل کو اُجاگر کر کے ان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ بھی ظاہر کیا ۔مذکورہ افسانوں میں مصنف نے اصلاح معاشرہ کی طرف توجہ دی۔ان افسانوں میں ہندو معاشرے کے بُرے رسم ورواج پر قلم اٹھایاگیا اور بیواؤں کے مسائل،بے جوڑ شادی ، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات وغیرہ جیسے مسائل کی بھی عکاسی کی گئی ہیں۔
رابطہ ریسرچ اسکالر یونیورسٹی آف میسور 8553935298)
������