ضیا درخشاں
بدلاؤ کا محرک پرکشا پہ چرچا(پی پی سی) کا ساتواں ایڈیشن آج یعنی 29 جنوری 2024 کو صبح 11 بجے سے ٹاؤن ہال فارمیٹ میں منعقد ہونے والا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرکشا پہ چرچا ایک منفرد پروگرام بن کر ابھرا ہے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی سکولی طلباء سے براہ راست بات چیت کرتے ہیں۔
وزارت تعلیم نے اساتذہ اور والدین کے ہمراہ 6 سے 12 جماعت تک کے سکولی طلباء سے شرکت کی دعوت دی ہے اور mygov.in میں مائی گورنمنٹ پورٹل پر بڑے پیمانے پر یعنی 2.26 کروڑ کا اندراج درج کیا ہے۔ یہ بڑی تعداد بذات خود ملک کے اطراف و اکناف میں طلباء، اساتذہ اور والدین میں وزیر اعظم سے بات چیت کرنے اور ان کی تعلیم سے متعلق معاملات پر ان کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی جوش و جذبہ کی عکاسی کرتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس بار اس پروگرام میں والدین اور اساتذہ بھی شامل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ وزیر اعظم سے تجاویز طلب کریں اور اپنے بچوں سے متعلق تعلیمی معاملات پر ان سے مشورہ لیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرکشا پہ چرچا وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے چلائی جانے والی ایک بڑی تحریک ’ایگزام واریئرز‘ کا حصہ ہے، جس کا مقصد طلبا، والدین، اساتذہ اور معاشرے کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ ایک ایسے ماحول کو پروان چڑھایا جاسکے جہاں ہر بچے کی منفرد انفرادیت کا جشن منایا جائے، حوصلہ افزائی کی جائے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اظہار کرنے کی اجازت دی جائے۔
’ایگزام واریئرز‘ وزیر اعظم نریندر مودی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے جس میں تعلیم کے حوالے سے حوصلہ افزا نقطہ نظر کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہر ایک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ غیر ضروری تناو اور دباو کی وجہ سے امتحانات کو زندگی اور موت کی صورت حال بنانے کے بجائے صحیح تناظر میں پیش کریں۔ مختصراً یہ کتاب یہ پیغام دیتی ہے کہ سیکھنا ایک خوشگوار، معیار پر پورا اترنے والا اور نہ ختم ہونے والا سفر ہونا چاہیے۔
موجودہ ٹیکنالوجی سے بھرپور ترقی یافتہ معاشرے میں بچوں اور طالب علموں کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔ معلومات کے بے لگام بہاؤ اور زندگی کی تیز رفتاری نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جو نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ انتہائی مسابقتی ہے اور یہ خاص طور پر نوجوان نسل کی مجموعی ترقی کو متاثر کر کرتا ہے۔ ان چیلنجوں میں خاص طور سے امتحان سے متعلق خوف اور اضطراب کا مسئلہ ہے، جو طالب علموں کی فلاح و بہبود اور اعتماد کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
تعلیم کی مسابقتی نوعیت کی شدت کے ساتھ ساتھ معلومات کے بے ہنگم پھیلاو نے ایک ایسی دوڑ کو جنم دیا ہے جہاں طالب علم مسلسل ایک دوسرے پر سبقت لینے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ صحت مند مسابقت ہمیشہ تعلیمی سفر کا ایک حصہ رہی ہے، لیکن انفارمیشن ٹکنالوجی کی آمد نے اسے انتہائی شدید سطح تک پہنچا دیا ہے۔ ساتھیوں کے دباؤ، والدین کی توقعات اور معاشرتی معیارات نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں کامیابی صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ذریعہ مقرر کردہ معیار ہے۔
یہ مقابلہ، جو کبھی اعلیٰ تعلیم تک محدود تھا، اب نچلی سطح پر بھی پھیل چکا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی تعلیمی کامیابیوں کا موازنہ اُن کے ساتھیوں سے کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جس سے نادانستہ طور پر نوجوان نسل میں حسد پیدا ہوتا ہے۔ اتنی کم عمری میں مسابقتی ذہنیت متعارف کرانے سے بچے اضطراب، افسردگی اور مایوسی کے شکار بن سکتے ہیں اور انہیں اس اضطرابی کیفیت سے باہر نکلنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
بہتری کی مسلسل جستجو بچوں پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ خاندان، اساتذہ اور معاشرے میں بچوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر حد سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دباؤ کو پوری طرح سے سمجھے بغیر بہترین بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ امتحانات سے وابستہ خوف اور اضطراب ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بلوغت تک برقرار رہتے ہیں اور اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی افراد کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ کامیابی، جس کی پیمائش صرف سماجی معیاروں سے کی جاتی ہے، خوشی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک اچھی زندگی کا بنیادی سبب بن جاتی ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام اگرچہ جدید ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے نوجوان طالب علموں میں جسمانی، ذہنی اور روحانی اعتماد پیدا کرنے کے بجائے نادانستہ طور پر تناؤ اور مایوسی کو فروغ دیتا ہے۔ والدین، خاص طور پر،
تعلیمی مہارت کے مسلسل تعاقب کے ساتھ طالب علموں پر ذہنی دباؤ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں پر تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مہارت حاصل کرنے کا دباؤ اکثر شدید تناؤ کا باعث بنتا ہے، جن میں سے کچھ چھ سال کی عمر تک کے بچوں کو ایسے مقابلوں میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں ناکامی ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے امتحانی نظام کا جائزہ لینے سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں طالب علموں کے لئے ایک خوف پنپ رہا ہے۔ اساتذہ برادری پرائمری جماعت سے ہی بچوں میں امتحانات کا خوف پیدا کرتی ہے، جس سے مسلسل جانچ کا کلچر قائم رہتا ہے جو پورے اسکول کے نصاب میں سرایت کر جاتا ہے۔ خاص طور پر نجی اسکول اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تادیبی اقدامات کا سہارا لیتے ہیں کہ اساتذہ طلباء کو ان کے نمبرات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں، ایک ایسا ماحول پیدا کریں جو مسابقت کو فروغ دے لیکن یہ سب کچھ بچوں میں سیکھنے کی فطری خوشی کو ختم کرنے کی قیمت پر ہو رہا ہے۔
ہمارے نظام میں رائج رویہ واضح ہے: ’’امتحانات پر توجہ مرکوز کریں‘‘۔ اس ذہنیت نے بچوں کو یہ یقین دلانے پر مجبور کیا ہے کہ صرف نمبرات ہی ان کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کالج اور یونیورسٹیاں بھی طالب علم کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کے بجائے سابقہ امتحان کے نمبرات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ والدین کی توقعات کی وجہ سے اعلی مجموعی نمبروں کا مسلسل تعاقب طلباء کے اعتماد کو ختم کرتا ہے اور ان کی انفرادی صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے۔
ان چیلنجوں کے پیش نظر قومی تعلیمی پالیسی ،جو متعدد اصلاحات سے بھری ہوئی ہے، 2020 میں شروع کی گئی تھی، یہ تعلیمی سال 2024-2023 کے دوران نافذ ہوئی۔ بھارتی تعلیمی نظام کے کام کرنے کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی لانے کے مقصد سے قومی تعلیمی پالیسی پورے نظام کو ایک ملک، ایک پالیسی ایجنڈے کے مطابق ایک ہی چھتری تلے لاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت پر مشتمل اس جامع تانے بانے کا مقصد تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرنا اور 2030ء تک انقلابی تبدیلیوں کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 رٹے یاد کرنے سے تنقیدی سوچ، مسائل کو حل کرنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی طرف منتقلی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق ڈھلنے کے قابل افراد کی دیکھ بال کے لئے کثیر الضابطہ سیکھنے کی عمل کو فروغ دیتا ہے۔ مرکزی دھارے کی تعلیم میں مہارت کی ترقی کے پروگراموں کا انضمام طلباء کو روزگار کی مارکیٹ کے لئے عملی مہارت کے ساتھ بااختیار بناتا ہے۔
بہرحال پرکشا پہ چرچا کا ساتواں ایڈیشن ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بیشتر طلبا اپنے سالانہ امتحانات میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، جو زیادہ تر مارچ کے پہلے ہفتے میں شروع ہوں گے۔ وزیر اعظم کے امتحانات کی بے چینی اور اس تناؤ کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے تجاویز کے بارے میں بات کرنے سے تین اہم سٹیک ہولڈر – طلباء، اساتذہ اور والدین کو پراعتماد ذہنیت کے نازک راستے پر چلنے میں مدد ملے گی۔
(مضمون نگار ایک فری لانسر ہیں۔بشکریہ:پی آئی بی سرینگر)