دنیا کے ہر حصے اور ہر ملک میںخواتین نے تہذیب وتمدن،معاشرت ،علم وفلسفہ،سیاست و حکومت اور زبان و ادب غرض کہ ہر میدان میں
اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس ملک یا خطے کے اپنے مخصوص حالات کے تحت ان کا حصہ مردوں کے مقابلے میں کم رہا ہو۔جہاں تک جموں وکشمیر کی بات ہے تویہاں بھی کئی شاعرات نے اپنی فکر کی روشنی سے ادب کی دنیا کو منور کیا ہے۔ان میں ایک اہم نام محترمہ پروین راجہؔ کا ہے ۔جموں و کشمیرکے معاصر ادبی منظر نامے پر پروین راجہ ؔایک معتبرشاعرہ ہیں۔1956 میں سرینگر کے مشہور علاقے بٹہ مالو باراں پتھرمیں تولد ہوئی ۔ آپ کے والد کا نام عبدالاحدراجہ ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بٹہ مالو سے حاصل کی اور میٹر ک کا امتحان پاس کر نے کے بعدگورنمنٹ زنانہ کالج ایم۔اے روڑ سے انٹر اور بی ۔اے کے امتحانات پاس کرکے سرکاری ملازمت محکمہ فائنائس میں اختیار کی ۔ملازمت کے دوران ہی کشمیریونیورسٹی سے فاصلاتی طرز تعلیم کے تحت اردو میں ماسٹرس ڈگری حاصل کی۔2016 میں بحیثیت اسسٹنٹ اکاونٹس آفیسر سبکدوش ہوئیں۔
جب پروین راجہ زنانہ کالج میں طالبہ تھیں تو اُن دنوں وہاں مس مریم ؔ (اہلیہ حامدی کاشمیریؔ)رنانہ کالج میں اردو پڑھایا کرتی تھیں۔وہ پروین راجہؔ کا کلام سن کر وہ بہت متاثر ہوئی ۔پروین ابتداء میں اپنا کلام مس مریم ؔکو دکھاتی تھی ۔اس کے بعد ان کا کلام مسلسل کالج کے رسالے (پمپوش ) میں شائع ہونے لگا۔زبان کے نکات ،محاورہ اور شعری اسالیب پر مس مریمؔ کو جوعبور حاصل تھا،اس سے پروین راجہؔ نے پورا استفادہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انھیں فنی نکات پر جوقدرت حاصل ہوئی ہے، وہ مس مریم ؔکے تلامذہ میں بہت کم ہی کو حاصل ہے۔ پروین راجہؔ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز28سال کی عمرمیں کیا جب ان کی پہلی آزاد نظم ماہنا مہ شاعر کے مارچ 1984کے شمارے میں شائع ہوئی۔اس کے بعد ان کی غزلیں اور نظمیںبرصغیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں شب خون،آجکل، توازن،کتاب نما،شمع اور شیرازہ قابل ذکر ہیں۔
آپ دبستان کشمیر کی ایک معروف شاعرہ کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ آپ کا شعری مجموعہ جلد شعری دنیا میں متعارف ہوگا۔پروین راجہ ؔ اپنی عزلوں اور نظموںمیں زندگی کی تلخ حقائق ،قدروں کی شکست و ریخت،انسان سے انسانیت کا رشتہ،سیاسی،سماجی اور مذہبی کشمکش کو بھر پور انداز میں پیش کرتی ہیں۔نیز اپنی شاعری کے موضوعات عام زندگی سے چنتی ہیں اور آئے دن کے واقعات کو غزلوں یا نظموں کا روپ دے کر صفحہ قرطاس پر اتارتی ہیں۔
پروین راجہ ؔکی شاعری ان معنوں میں نئی ہے کہ انہوں نے میں عورت کی بے بسی،اس کی فکر،اس کی سوچ اور سب سے بڑھ کر اس کی انا،جو کہ اسے سب کچھ کرنے کے لئے مجبور کردیتی ہے، کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے۔پروین راجہؔ بدلتے ہوئے سماج اور ایک نئی سوسائٹی کی پروردہ ہیں جنھوں نے عورت کے دکھ درد،اس کی ہمدودی اور اس کی فکری بلندی کو محسوس کیا اور ان کوآگے بڑھانے میں اپنا خاصا کردار نبھایاہے۔ان کی یہ نئی آوازموجودہ سماجی نظام سے ٹکراتی ہے اور اس نظام کو بدلنا چاہتی ہیں،جس نے کئی عرصے سے عورتوں پر ظلم کیے ہیں،ان کو اپنے غلام ہی نہیںبنایابلکہ ان کا جی بھر کے استحصال بھی کیا ہے۔اس سے پہلے عوت ایک معصوم کردار تھی نیزمردوں کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہی زندہ رہنا اس کا مقصد بن گیا تھا لیکن اس کے برعکس عورت کا دوسرا روپ بھی ہے جواب اپنے بھولے پن سے باہرآگئی ہے اور وہ مردوں کی بنائی ہوئی دنیا اور ان کے اصولوں سے بغاوت کربیٹھتی ہے۔اس موقع پر پروین راجہؔ کہتی ہیں:؎
کسے خبر تھی کہ وہ بات کس سفر کی تھی
ستار ہ داں نے ہتھیلی جو دیکھ کر کی تھی
میں اپنے خواب سمندر میں پھینک آئی مگر
یہ ساحلوں کے قریں چیخ کس لہر کی تھی
شفق شفق سے اترتا رہا یقین کا لہو
بہت حسین نشانی یہ راہبر کی تھی
پروین راجہ ؔ اپنے ہم خیال طبقہ نسواں کو ایک ذہنی سوچ کے ساتھ اب تک کے قائم نظام سے آگاہ کرتی ہیں کہ ان کی تر قی موجودہ پدری نظام میں ممکن نہیںہے۔کبھی یہ سوچنا چاہئے کہ آخر عورت میں یہ بیداری یکا یک کیسے اور کیوں پیدا ہوئی۔کیا محض نفسیاتی صورت ہے یا بے جا دبائو یا عورت اپنے لئے زندگی کے نئے راستے خود بنا کردنیا میں زندہ رہنے کے لئے فکر مند ہے۔شاید ایسا ہی محسوس ہوتا کہ ٹکرائو محض جنس کا نہیں بلکہ ناانصافیوں اور امکانات کا ٹکرائو ہے۔ناانصافیاں مرد کی اور امکانات عورت کے ،کیونکہ تعلیم یاقتہ ہونے کے بعدعورت اپنی حق تلفیوں اورزبردستیوں کا احساس زیادہ کرنے لگی۔عورت گھر کی چار دیواری اور اس طرح کی دوسری پابندیاں توڑ کراپنے حقوق، اپنی طاقت اور علم سے حاصل کیے ہوئے ممکنات کی تلاش میں ہے ۔ایسے میں پروین راجہ بول اٹھی ؎
اک سمندر ہے کہ میرے پیچھے پیچھے آگیا
خواب رفتہ سے کہر پہلے کنارہ دیکھا
ایک لحے میں وہ نقد جان ودل لے کر گیا
نفع کی امید کیا، اب کیا خسارہ دیکھنا
سورجوں کی شوخ کرنیں اوڑھ کے نکلی ہوں میں
کون سا لازم ہے اب اس کا اشارہ دیکھنا
پروین راجہؔ کی غزلوں میں آشوب آگہی کا بیان بھی ہے اور زمانے کی بدحالی کا کرب بھی۔سیاست کی پیچیدگیوں اور اس کی خامیوں کااظہار بھی ہے اور اس سے نبردآزما ہونے کا جذبہ بھی۔وہ لمحہ لمحہ سیاست پر نظر رکھتی ہیں،جبھی تو طوفان کے آثار وہ قبل از وقت محسوس کرلیتی ہیں۔وہ جذبات کے بہائو میں حقیقت اور واقعیت کا دامن نہیں چھوڑتی ہیں۔ان کی غزلیں رزم و بزم دونوں پہلوئوں سے معاملہ رکھتی ہیں اور یہ شاعرہ کا کمال ہے کہ وہ تو زرمیہ فکر کو غزلوں کا محو ربناتی ہیں اور نہ اس سے فرار حاصل کرکے بزمیہ طرز فکر میں جائے عافیت تلاش کرتی ہیں ۔دراصل ان کی غزلیں دونوں پہلوئوں کی ارتقائی منازل سے واسطہ رکھتی ہیں اور حسن عشق کی کشاکش کی خوبصورتی اور دلکشی کو بھی پورے خلوص سے اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔بقول پروین راجہ ؎
منظر دھواں دھواں ہے تو خوابوں کے گھر کہاں
اے شہر خوش جما ل ترے بام و در کہاں
مقتل سے آنے والی ہوائوں کے درمیان
سڑکوں پہ گھومتے ہوئے شانوں پہ سر کہاں
وادی کو پھونکنے ابھی نکلی ہیں آندھیاں
یا رب چھپائوں میں یہ متاع ہنر کہاں
دامن میں عمر بھر کی مسافت سمیٹ کر
گُم تھی سکوت شام میں وہ چشم تر کہاں
پروین راجہؔ اپنی نظموں میں عورت کی بہا دری،اس کی ہمت اور اس کی نئی سوچ کو جابجا بیان کرتی ہیں۔موجودہ دور کے نسوانی کردار کو وہ یوں بیان کرتی ہیں۔ ؎
پتہ نہیں کیوں میں چاہتی ہوں / جب دن کی دیوار گرے
شام میری ساری چیخیں سمیٹ کر / ماتم زدہ راتوں کو سونپیں
یا
جو نہی چلی /نئے سفر کی تلاش میں
میرا حریف /حدیں پھلانگتا ہوا
کمانوں کے رخ میری جانب کئے
یہا ں پروین راجہؔ عورت میں اعتماد اور تیر کمانوں کا مقابلہ کرنے کے علاوہ اسے آگے بڑھنے کے لئے متوجہ کرتی ہے۔نیر یہ اشارے عورت کینئی آرزو مندی کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔یہ خوداعتمادی پروین راجہؔ کی شاعری میں ہر قدم پر موجود ہے۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پروین راجہؔکی شاعری بھی غور وفکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں شدت احساس پوری طرح جلوہ گرہے۔ اپنے موضوعات اور اسالیب کی رنگارنگی سے دبستان جموں و کشمیر میںپروین راجہ ؔاپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں ہمارے وادی نمناک میں خود اعتمادی کی جگر سوز شاعرہ ہیں۔
(مضمون نگارجموں وکشمیر کی نسائی شاعری پر تحقیق کر رہا ہے)
رابطہ رعناواری سرینگر
9103654553