سبزار احمد بٹ
مرغوب بانہالی بیک وقت ایک شاعر، ادیب ،قلمکار، محقق نقاد، نعت گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ترجمہ نگار بھی تھے۔ان کا شمار کشمیری زبان کے چوٹی کے شاعروں، قلمکارو، اور نعت گوؤں میں ہوتا ہے۔ مرغوب بانہالی شریف النفس، دین دار، شیریں کلام ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔اگر چہ انہیں اردو اور فارسی زبان پر بھی عبور تھا تاہم انہوں نے کشمیری زبان کو ہی اپنی بیشتر تخلیقات کے لیے اظہار کا وسیلہ بنایا،جو اس بات کی دلیل ہے کہ مرغوب بانہالی کشمیری زبان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کشمیری زبان کی درس و تدریس اور خدمت میں صرف کی۔مرغوب نے 5 مارچ 1937 بنکوٹ بانہال کے ایک تجارت پیشہ گھرانے میں جنم لیا ، اصل نام خواجہ غلام محمد تھااور والد صاحب کا نام خواجہ اسد اللہ گیری تھا ۔ غلام محمد سے موغوب بانہالی تک کے سفر میں انہیں بہت سارے پاپڑ بیلنے پڑے ۔ نویں جماعت میں ہی زیر تعلیم تھے کی والد صاحب کے سایےسے محروم ہو گئے،معصوم کاندھوں پر گھر کا سارا بوجھ آن پڑا،اوراپنی ہر ایک ذمّہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی ۔دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں بطورِ مدرس تعینات ہوئے ۔اس دوران کچھ ایسے لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی جنہوں نے غلام محمد کو موغوب بانہالی بنانے کا کردار ادا کیا ۔ان اہم شخصیات میں حاجی غلام محمد شاہ ( جو بعد میں مرغوب بانہالی کے والد نسبتی بھی بنے)، سرینگر کے حکیم محمد حفیظ اللہ، بارہ مولہ کے مولوی غلام محدالدین وغیرہ شامل تھے۔ بلکہ مولوی غلام محدالدین کے کہنے پر ہی انہوں نے اپنا قلمی نام موغوب بانہالی رکھا۔چنانچہ شعرو شاعری کا شغف بچپن سے ہی تھا اور یتیمی کے حالات میںبھی اپنے اشعار کا اظہار کرتا رہا۔
مرغوب بانہالی نے ملازمت کے دوران ایم اے، کیا اور ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے ۔ہائی اسکول ہیڈماسٹر ہونے کے بعد، تحصیل ایجوکیشن آفیسر تعینات ہوئے ،اپنی غیر معمولی ذہانت کے باعث 1969 میں کشمیر یونیورسٹی میں فارسی شعبہ میں بطور لیکچرر مقرر ہوئے اور 1986 میں پروفیسر بنے، شعبہ فارسی کے سربراہ مقرر ہونے کے علاوہ کلچرل اکادمی اور ساہتیہ اکادمی سے بھی منسلک رہے، 1997 میں بطور کشمیری شعبہ کی صدر کی حیثیت سے با عزت سبکدوش ہوئے ۔اُن کے زیر نگران سینکڑوں طلاب نے پی۔ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔
پروفیسر مرغوب بانہالی کی شاعری کے مختلف پہلو ہیں، وہ ایک انسان دوست اور محبت کے شاعر تھے۔انہوں نے سماج سدھارنے اور انسانی اور اخلاقی قدروں کی بحالی جیسے موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ جبکہ نعت گوئی بھی آپ کی شاعری کا ایک اور پہلو ہےاور ان کی محبوب صنف رہی ہے۔مرغوب بانہالی شیخ شناسی اور اقبال شناسی میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے، انہوں نے شیخ العالم پر بہت سارا کام کیا ہے ۔اقبالؒ پر لکھی گئی ان کی تصنیف ’’ اقبال سنز زندگی ۔ فکر تہ فن ‘‘ ان کی ایک اہم کتاب ہے ،اس کتاب کی نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بھی سراہنا کی گئی ۔اس کے علاوہ ’’ آدم گرٰی اقبال ‘‘،’’ خزینہ امن ‘‘ کلام ِ اقبال کے روحانی سرچشمے وغیرہ اسی اقبال شناس کے کارنامے ہیں ۔مرغوب بانہالی کی تقریباً پچاس تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ پرتوستان ‘‘ 1976 میں شائع ہوا۔اس شعری مجموعے پر ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا کر سال کی بہترین کتاب قرار دیا ۔یاد رہے کہ مرغوب بانہالی نے یہ ایوارڈ 2015 میں احتجاجاً واپس کیا۔ دوسرا شعری مجموعہ 2007 میں ’’تجلستان ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس میں نعتیہ کلام کے علاوہ ایسی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن میں کشمیر کے حالات و واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ موصوف کی کتاب ’’ کشمیر شناسی‘‘ 2001 میں شائع ہوئی ،اس کتاب میں کشمیری ثقافت کی تاریخ بیان ہوئی ہے بلکہ تاریخ کے چند المناک گوشوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
مرغوب بانہالی ایک انصاف پسند انسان تھے اور ظلم و جبر اور استحصال کے مخالف تھے، انسان کی عظمت اور قدرومنزلت کے طرفدار تھے۔اس طرح کے خیالات ان کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں، ان کی شاعری میں نہ صرف ایک خاص قسم کا تسلسل پایا جاتا ہے بلکہ ان کی شاعری قاری کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں اشاروں کنایوں سے کام لیا ہے۔وہ اپنی استعاراتی شاعری میں ہمیں بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے رہےہیں۔ اگر چہ انہوں نے کشمیری زبان کو ہی تخلیقی اظہار کا زریعہ بنایا تاہم انہوں نے اردو زبان میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اردو میں ان کی غزلوں کا دیوان ’’ چراغاں ‘‘ نام سے شائع ہوا ہے اور ’’ کشمیری املا کی اردو دوست معیار بندی ‘‘ جیسی کتاب بھی اسی سپوت کے کارنامے ہیں۔
مسلمانوں کی عالمی سطح پر زبوحالی کا افسوس موغوب بانہالی کو اندر سے کھائے جارہا تھا۔وہ چونکہ دینی مزاج کے انسان تھے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ان کی شاعری میں یہی پیغام ہے کہ جب تک ہم اللہ اور اللہ کی رسول صلی علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے، تب تک ہماری فلاح کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مرغوب نظم نگاری میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ان کی نظموں میں رنگارنگی پائی جاتی ہیں ’بند زُوِس منز‘،’ یاسر عرفاتس کُن‘، ’ہردنی وداکھ‘،’ فوٹو اور احساس‘آپ کی شاہکار نظمیں ہیں۔
مرغوب بانہالی کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف ادب سے وابستہ نامور ہستیوں نے کیا ہے۔موتی لال ساقی ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مرغوب بانہالی کی شاعری میں ایک طرح کی روانی ہے، ان کی شاعری قاری کو سکون فراہم کرتی ہے اور مرغوب کو پڑھ کر ان کے مخصوص ڈکشن کا پتہ چلتا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر شفیع شوق ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ مرغوب بانہالی کی شاعری میں محض فکری عنصر ہی نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی شاعری اسلامی اصولوں کی آبیاری کر رہی ہے اور منفرد اشعار کا استعمال مرغوب بانہالی کی شاعری کو ممتاز و منفرد بناتی ہے۔‘‘
ادبی کارناموں کے عوض مرغوب بانہالی کو متعدد انعامات و اعزازات ملے۔ 1999 میں رساجاودانی میموریل ایوارڈ سے نوازا گیا، 2007 میں ریاستی انعام دیا گیا اور 2008 میں غالب ایوارڈ عطا کیا گیا۔اسی سال بھارت کے صدر نے ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں سند عطا کی اور غالب انسٹیوٹ دہلی نے بھی ایوارڈ سے نوازا ۔2009 میں ’’ خلعت حاجنی‘‘ سے عزت افزائی کی گئی ۔ 2010 میں مرغوب بانہالی کو ادبی مرکز کمراز کی طرف سے ’’شرف ِ کمراز‘‘ سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ بھی چند انعامات سے نوازا گیا۔مرغوب بانہالی کے ادبی سرمائے کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان انعامات اور اعزازات کی خوش قسمتی ہے جو مرغوب بانہالی کے نام سے منسوب ہوئے۔ریاستی کلچرل اکادمی نے 2016 میں کشمیری زبان میں شیرازہ مرغوب بانہالی نمبر نکالا (اس شیرازے سے میں نے بھی استفادہ کیا ہے)، جس میں کشمیر اور کشمیر سے باہر کے نامور ادیبوں اور قلمکاروں نے مرغوب بانہالی پر اپنے تاثرات اور مقالے لکھے ۔ان کے کام کو ان چند سطور میں سمیٹا نہیں جاسکتا ہے۔ جناب مرغوب بانہالی ہمیں 2021 میں 84 سال کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں تاہم ان کے ادبی کارناموں کی صدائے بازگشت بڑی دیر اور بڑی دور تک سنائی دے گی۔ اللہ رب العزت کشمیری زبان و ادب کے اس خیر خواہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ( آمین)
7006738436
[email protected]