فواد سیز گین علم و تحقیق کا ایک عظیم اسکالر تھے ۔وہ ۲۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ترکی کے ایک مشہور شہر بطلس میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم ارض روم میں حاصل کی ۔پھر استنبول کا رخ کیا اور وہاں سے انھوں نے ہجرت کر کے۱۹۴۷ء میںجامعہ استنبول میںگریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد انھوں نے وہی سے پروفیسر ہلمٹ رٹر (Helmut Ritter ((1892- 1971)کی نگرانی میں صحیح البخاری کے ماٰخذکے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔انھوں نے اس میں ثابت کیا کہ امام بخاری کے وقت احادیث کے بہت سے مجموعے تحریری شکل میں موجود تھے اور ان کی نشان دہی بھی کی ۔)البتہ بعض لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ انھوں نے ابوعبیدہ کی کتاب ’’مجاز القرآن ‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی( تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ عرصے تک درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ ۱۹۶۲ء میںانھوں نے فرینک فورٹ کی گوئٹے یونیورسٹی میں عرب اسلامی سائنس کی تاریخ پر دوسری پی۔ ایچ ۔ ڈی کی اور پھر اسی یونیورسٹی میں ۱۹۶۵ء میں ان کا پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہواانھوں نے متعدد ادارے قائم کئے جن میں ایک خاص ادار ہInstitute of the History of the Arab and Islamic Science(مہد تاریخ العلم العربیہ والاسلامیہ )ہے ۔یہ تحقیقی ادارہ انھوں نے جرمن میں قائم کیا تھا اور یہ ادارہ عرب اور اسلامی علوم پر کتابیں شائع کرتا ہے ۔اسی ادارے سے متعلق انھوں نے ایک تحقیقی مجلہ ’’Journal of Arab and Islamic Scienecs کے عنوان سے اجرا ء کیا ۔ اس کے علاوہ کئی مخطوطات کو متعارف کرایا ۔موصوف زیادہ تر جرمنی میں رہے اسی لئے ان کا بیشتر علمی کام جرمنی زبان ہی میں ہے ۔ وہ ایک عبقری اور علمی شخصیت تھے اور عالم اسلام کے ایک بے مثال محقق تھے ۔ انہیں عربی ، انگریزی ،ترکی اور جرمن زبان پر زبردست عبور حاصل تھا ۔ڈاکٹر موصوف تاریخ علوم و ادبیات کے زبردست ماہر تھے ۔ علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کا بے حد زوق و شوق رکھتے تھے، اسی لئے زندگی کے آخری لمحہ تک علم و تحقیق کی آبیاری کرتے رہے ۔وہ حقیقی معنوں میں علم و تحقیق کا ایک بے مثال محقق تھا اورہر وقت اس میں منہمک رہتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یومیہ سترہ گھنٹے پڑھتے تھے ۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ’’ تاریخ التراث العربی ‘‘ ہے ۔علوم اسلامیہ کے موضوع پر یہ ایک زخیم کتاب ہے جو ۱۵ جلدوں پر مشتمل ہے ۔علمی حلقوں میں یہ ایک تاریخی اور مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے ۔ یہ کتاب اصل میں جرمن زبان میں لکھی گئی ہے ۔بعد میں اس کا ترجمہ تاریخ التراث العربی کے نام سے کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر موصوف نے اس زخیم تصنیف میں دن رات ایک کر کے علوم اسلامیہ پر اچھا خاصا مواد جمع کیا ہے ۔علوم اسلامی کی تاریخ پر یہ ایک مستند اور عظیم ماٰخذ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے قرآن ، حدیث تاریخ ، فقہ ،عقائد ، تصوف ، شاعری ،لغت ، نحو ،بلاغت ، علم الحیوان ، طب ،فلکیات ،طبعیات ، ارضیات ، فلسفہ ، منطق ، سیاسیات ، اخلاق ،علم الاجتماع ، جغرافیہ اور علم کیمیاء میں مسلمانوں کی خدمات ہیں ، ان کا مفصل تعارف کرایا ۔ اسلامی تاریخ پر بے شمار کتب لکھی جاچکی ہیں ۔ قرن اول ہی سے مسلمانوں نے تاریخ اور علم تاریخ سے بے حد دلچسپی دکھائی اوراس فن کو عروج بخشا ۔اسی کی بدولت تاریخ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے جن میں سے ہر کتاب منفرد خصوصیات و امتیازات کی حامل ہے، جن سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ذخیرہ تاریخ میں تاریخ طبری ،تاریخ ابن کثیر ، مقدمہ ابن خلدون ،طبقات ان سعد اورتاریخ فرشتہ قابل ذکر ہیں ۔اس تعلق سے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’ تاریخ التراث العربی ‘‘ اس ذخیرے میں اہم اضافہ ہے ۔ رٹر (Helmut Ritter ) جیسے محقق نے اس کتاب کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ’’ایسی کتاب نہ تو اس سے پہلے لکھی گئی اور نہ اس کے بعد اس حسن کے ساتھ لکھی جاسکے گی ‘‘۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ Natural Sciences in Islam ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب میں مسلمان اور عربوں کے سائنسی کارناموں کاتعارف کرایا ۔ان کی ایک اور جامع کتاب محاضرات پر مشتمل ہے جس کا اردو ترجمہ’’ تاریخ علوم تہذیب اسلامی کا کردار ‘‘ ہے ۔اس میں ڈاکٹر موصوف نے اسلام کی ابتدا سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک مختلف علوم و فنون کا جائزہ لیا ہے ۔اس تعلق سے یہ اس موضوع پر ایک منفرد تحقیق ہے ۔ ا نہیں ۱۹۷۸ء میںعلوم اسلامیہ کی خدمت کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڑ سے نوازا گیا ہے ۔اسی سال مولانا مودودی کو بھی یہ ایوارڑ دیا گیا ۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف کا کام کتنا پھیلا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر سیزگین نے اسلام کے علمی میراث میں زبردست اضافہ کیا جس سے اہل علم و دانش استفادہ کرتے رہیں گے ۔ انھوں نے مستشرقین خاص کر مستشرق ہلمٹ اور ڈاکٹر بروکلمان کے پھلائے ہوئے زہریلے پرپیگنڈوں کا زبردست جواب دیا ہے ۔تدوین حدیث پر اٹھائے گئے اعتراضات کا بھی مسکت جواب دیا ۔ اس کے علاوہ تاریخ تدوین حدیث کے بارے میںاگناز گولڈ زہر کے نظریات کا مدلل تنقیدی جائزہ پیش کیا اور مدلل اسلوب میں ان کے بوندے خیالات کا رد کیا ۔
ڈاکٹر خرشید رضوی جنھوں نے ان کے محاضرت کا اردو میں ترجمہ کیا ، لکھتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ حقائق سے آنکھیں چار کرتے ہوئے جرات مندی کے ساتھ خود تنقیدی عمل سے گزرا جائے، حصول مقصد کے لئے نہ تو مختلف مغربی نظاموں کی کورانہ تقلید مناسب ہے ،نہ محض ماضی پرستی ۔مسئلے کا حقیقی حل یہ کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے زمانہ حال میں معاشرے کی علمی سطح کو بلند کیاجائے۔جمود ایک ایسا تاریخی عمل ہے جو ہر تہذیب پر وارد ہوا ہے ، لہٰذا اس سے دل شکستہ و مایوس ہونے کے بجائے اس کے حقیقی اسباب کا سراغ لگا کر اپنے علمی ورثے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا اور تقیلد محض سے بچتے ہوئے دور حاضر کی انسانی میراث کے صالح عناصر کو جرات مندانہ طور پر اخذکرنا ضروری ہے ۔اس مقصد کے لئے مسلمان معاشرے کو اعلیٰ درجے کے ذہن پیدا کرنے ہوں گے اور ایسے ذہنوں کی تعمیر کے لیے شدید محنت درکار ہے۔ ‘‘ فواد سیزگین علمی ورثہ کو تنقیدی جائزہ لینا بھی ضروری سمجھتے تھے ،چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ ورثے میں ملنے والے اداروں کا حقیقت پسند تجزیہ کریں ،اور تقلیدِ محض سے دامن بچاتے ہوئے دور حاضر کے میراثِ انسانی کے صالح عناصر کو جرات مندی کے ساتھ اخذ کریں ‘‘۔اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں ارتقائے علمی کا نقطہ آغاز ’’ بیت الحکہ ‘‘ کا قیام ہے ۔ لیکین فواد سیزگین صاحب کو اس خیا ل سے اختلاف ہے ،ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں نتیجہ خیز علمی و فکری سرگرمی کا آغاز پہلی صدی ہجری ہی میں ہوگیا تھا ۔ان کا خیال ہے کہ دوسری صدی ہجری کے وسط کے بعد ، خلافت عباسیہ کے آغاز کے ساتھ اور دوسری صدی کے انجام اور تیسری کے آغاز کے موڑ پر خلیفہ مامون کے قائم کردہ بیت الحکمت کی تاسیس کے بعد پیش آیا ۔ فواد سیزگین اسلامی معاشرہ کی تشکیل جدید بھی چاہتے تھے ،اس کے لئے انھوں نے خاکہ بھی تیار کر رکھا تھا ۔اسی لئے وہ افراد کار اور افراد سازی پر زور دیتے تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ اسلامی معاشرہ بہترین افراد اور علماء کے حصول کی تدبیر کے سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھے ۔ان کے نزدیک معاشرہ کا اصل مقصد تب ہی حاصل ہو پائے گا جب مسلمان اس فرض کو شعوری طور سے ادا کریں ۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ’’ لازم ہے کہ اس ذمہ داری کو اٹھانے والا پڑھا لکھا آدمی ہو مادی طور پر ، انانیت کی سطح پر ،نیز آرام و آسائش کی سطح پر اس قربانی کے لئے تیار ہو جو اس پر عائد ہوتی ہے ۔ ‘‘گویا کہ ایک نوجوان کو یہی تین چیزیں مادیت ، انانیت اور آرام طلبی، فرض انجام دینے میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔
فواد سیزگین روایات سے جڑے رہنے کی بات بھی کرتے ہیں اور مغربی دنیا سے استفادہ کرنے کی بھی تلقین کرتے تھے ۔لیکن ان دونوں سے حد اعتدال سے گزرنے سے منع کرتے ہیں ۔وہ اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اعتدال کی روش اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھناچائیے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری سے عظیم الشان علمی اور عملی کا م کاآغاز کیا اور اس علمی وراثت کوآگے بڑھانا ہوگا ۔ان دلائل کی بنیاد پر یہ بات کہتے ہیں کہ یورپ کی تحریک احیاء کے دور پر عربی و اسلامی علوم کا اثر اس قدر وسیع اور عمیق ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں ۔یہ رائے محض ایک خیال یا تاثر پر مبنی نہیں ،بلکہ ان علوم پر تیس برس کے مسلسل مطالعے اور تحقیق کا نتیجہ ہے ۔
فواد سیزگین کا انتقال رواں سال ۳۰ جون کو ۹۴ سال کی عمر میں ہوا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ تابندہ ستارہ علمی دنیا کے لئے ایک بڑا خصارہ ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کی ان کی تمام لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے ۔عالم اسلام کے ایک عظیم قائد اور ترک صدر نے ۲۰۱۹ ء کا سال ڈاکٹر فواد سیزگین کے نام کر کے اسے مسلم دنیا کے لئے ایک چراغ راہ قرار دیا ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس چراغ راہ کا متبادل فراہم کرے ۔آمین ۔
رابطہ :6937700258