پروفیسر غفور احمد کی صفات میں میں جہاں محنت، جاں فشانی، ایمانداری، خودداری، قناعت شامل تھیں ،وہیں آپ غریب پرور اور انتہائی دردِ دل رکھنے والے انسان بھی تھے۔ مالک اور ملازم کا رشتہ عموماً مفادات کا ہوتا ہے اور ملازمین اکثر پیٹھ پیچھے مالک کی مختلف عادتوں کی برائیاں ہی کررہے ہوتے ہیں، لیکن غفور صاحب اور لالہ کا رشتہ بڑا ہی منفرد تھا۔ غفور صاحب ڈرائیور شاوت خان کو پیار سے’ ’لالہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ رشتہ ایک دوست‘ ساتھی اور غم خوار کا تھا۔ غفور صاحب نے جہاں شاوت خان کے ساتھ کبھی ملازم کی طرح سلوک روا نہیں رکھا وہیں شاوت خان نے بھی خاص طور پر آخری ایام میں ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاوت خان کا غفور صاحب سے تعلق نوجوانی سے بڑھاپے تک 42 سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ وہ ہر ہر قدم اور مشکل میں ان کے ساتھ رہے ہیں اور بہت سے اہم واقعات کے چشم دید گواہ اور رازداں ہیں جن سے شاید کوئی واقف نہیں ہے۔ ہم نے خصوصی طور پر شاوت خان کی زبان سے پروفیسر غفور احمد کو جاننے کی کوشش کی ہے جو یقینا پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
شاوت خان کہتا ہےکہ ’’اُس وقت میری عمر 17 سال تھی۔ پروفیسر غفور صاحب نے اپنا مکان فیڈرل بی ایریا میں نیا نیا بنایا تھا‘اس وقت فیڈرل بی ایریا بالکل سنسان علاقہ تھا ان کو چوکیداری اور اوپر کے کاموں کے لیے کسی فرد کی ضرورت تھی۔ میرے ایک رشتہ دار غلام شاہ پروفیسر صاحب کے ملازمت کرتے تھے ۔ ان ہی کی معرفت پروفیسر غفور صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی اور غلام شاہ ہی مجھے غفور صاحب کی رہائش گاہ پر لائے۔ پروفیسر صاحب نے سلام دعا کے بعد بیگم صاحبہ کو بتایا اور مجھے ان کی رہائش گاہ میں ایک ہوادار کمرہ جس میں باتھ روم تھا، مل گیا۔ شروع میں میرا کام چوکیداری کرنا تھا۔ دروازے پر ملاقاتی آتے، ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھاتا تھا۔ پھر میرے کام میں گھر کا سودا سلف لانا شامل ہوا۔ غفور صاحب کے بچے میری بڑی عزت کرتے تھے اور سب مجھے لالہ کہتے تھے اور آج تک کہتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے طارق فوزی کی لکڑی کے ٹی وی کیبنٹ بنانے کی فیکٹری تھی اور میں ان کی گاڑی صاف کرتا تھا۔ اس دوران مجھے گاڑی چلانے کا شوق ہوا اور اسے اسٹارٹ کرلیتا تھا۔ غفور صاحب نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے طارق فوزی بھائی سے کہا کہ اسے گاڑی چلانا سکھا دو۔ انہوں نے بڑی اچھی طرح مجھے گاڑی چلانا سکھائی اور پھر میں نے لائسنس بنوا لیا۔ غفور صاحب کے جماعت کی طرف سے ملے ہوئے ڈرائیور ظفر کے انتقال کے بعد میں نے یہ فریضہ اپنے سر لے لیا، یہی موقع تھا جب میری غفور صاحب سے قربت ہوئی۔ ‘‘
جب لالہ سے پوچھا کہ ڈرائیونگ پر کبھی ڈانٹ تو پڑتی ہوگی؟ تو ان کا کہنا تھا: ’’غفور صاحب نے میری ڈرائیونگ پر کبھی تنقید نہیں کی، نہ کبھی یہ کہا کہ تم تیز چلا رہے ہو۔ ہاں ہارن دینے پر ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے: ہارن دینے سے سامنے والا گھبرا جاتا ہے۔ بس اتنی ہی ڈانٹ تھی۔‘‘
وقت کی پابندی کے حوالے سے شاوت خان کا کہنا تھا کہ ’’پروفیسر صاحب وقت کی قدر کرتے تھے اور چاہے کوئی میٹنگ ہو یا شادی، غمی… وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتے تھے۔ مجھے صرف بتا دیا کرتے تھے کہ فلاں جگہ اس وقت پہنچنا ہے۔ کبھی پچھلی سیٹ پر نہیں بیٹھے، نہ کوئی گارڈ رکھا۔گارڈ کو مصیبت سمجھتے تھے۔ مشکل حالات میں بھی اللہ پر بھروسا رکھتے تھے اور کہتے تھے: بچانے والی ذات اللہ کی ہے۔ الیکشن کے دنوں میں اتنا سفر کرتے کہ میں جوان آدمی تھک جاتا، مگر وہ شاید لوہے کے بنے ہوئے تھے‘‘۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے شاوت خان نے کہا: ’’ایک دفعہ میں بہت تھک گیا، انہوں نے مجھے چھوڑ دیا کہ تم آرام کرو اور خود ہی گاڑی لے کر چلے گئے۔ وہ زمانہ الیکشن کا تھا اور ایم کیو ایم عروج پر تھی، اس کا ہر کارکن فرعون تھا۔ جب واپس آئے تو مجھ سے کہنے لگے ’’شاوت خان تمہاری گاڑی لگ گئی‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ واٹر پمپ پر متحدہ کے لڑکوں نے غفور صاحب کو دیکھ کر شرارتیں شروع کیں اور موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکے سائیڈ دینے لگے اور پھر گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہوگئے۔ لوگ جمع ہوئے، غفور صاحب کو دیکھ کر ان لڑکوں کو ہی گالیاں پڑیں، مگر غفور صاحب نے جمع ہونے والے لوگوں سے کہا کہ ان کو گاڑی میں ڈالو میں اسپتال لے کر جائوں گا۔ ان کا علاج کروایا، انہیں گھر چھوڑا اور پھر عیادت کرنے بھی جاتے رہے۔ پھر ان لڑکوں کے والدین اور انہوں نے غفور صاحب سے معافی مانگی۔‘‘
ایجنسیوں کی غفور صاحب کی نگرانی کے حوالے سے شاوت خان نے بتایا: ’’جب ایم این اے تھے تو بھٹو صاحب نے مستقل CIA کی گاڑی میں ایجنسی کے افراد کی ڈیوٹی لگائی تھی جو گھر کے اطراف میں ہوتے تھے۔ جب غفور صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے ان افراد کو بلایا اور کہا کہ آپ کیوں زحمت کرتے ہیں، میں اپنا پروگرام آپ کو دے دیا کروں گا کہ میری کہاں کہاں ملاقات ہے۔ اس کے بعد وہ افراد غفور صاحب سے پروگرام لے کر چلے جاتے تھے اور اپنی خانہ پری کرتے تھے۔‘‘
سرکاری وسائل کے استعمال کے حوالے سے وہ کتنے محتاط تھے اس حوالے سے شاوت خان کا کہنا تھا: ’’جب وزیر بنے ان کو سرکاری گاڑی ملی جو گھر میں کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ جب اپنے پرائیوٹ کام سے جاتے تو اسی پرانی گاڑی پر جو وہ استعمال کرتے تھے۔ سرکاری گارڈ پسند نہیں کرتے تھے، اور کہتے تھے یہ فضولیات ہے۔ کہتے: موت برحق ہے، یہ گارڈ نہیں بچا سکتے۔‘‘
اپنی شادی کا احوال بتاتے ہوئے شاوت لالہ نے کہا: ’’غفور صاحب کے گھر میں ہی میری شادی ہوئی تو نیچے گیراج خالی کرکے کمرہ بنا لیا۔ میرے تمام بچوں کے نام بیگم صاحبہ نے رکھے اور جب میرا خاندان بڑھنے لگا تو بیگم صاحبہ کے کہنے پر میں نے قصبہ میں کرائے کا مکان لیا اور پھر ان ہی کے مشورے پر ایک قطعہ زمین خرید لیا جو اس وقت سستا مل رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے مالی تعاون کے لیے فون کیے۔ ان کی اولاد گو مالدار نہیں تھی مگر حسب استطاعت مدد کی اور آہستہ آہستہ میرا مکان بن ہی گیا۔ 2004ء میں غفور صاحب کا پروسٹیٹ گلینڈ کا آپریشن ہوا اسلام آباد میں، جو کامیاب رہا۔ اسلام آباد سے غفور صاحب واپس کراچی آئے، اُس وقت وہ سینیٹر تھے۔ ان ہی دنوں بیگم صاحبہ کی ٹانگ کی ہڈی بھربھری ہوکر ٹوٹ گئی اور وہ وہیل چیئر پر آگئیں۔ مگر وہ غفور صاحب کے تمام کام بڑے نپے تلے انداز میں کرتیں۔ ان کے کپڑوں کا خیال، کھانے پینے کا خیال… وجہ یہ تھی کہ غفور صاحب کا معدہ کمزور تھا۔ گٹھیا بھی تھا جسے دوا سے کنٹرول کرتے تھے۔ بیگم صاحبہ نے کپڑوں کے بارے میں تمام ٹریننگ مجھے دی،کیونکہ ان کی اولاد تو اپنے کاموں میں مصروفِ ہوتی۔ پوتے کالجوں میں تھے۔ توبیگم غفور پروفیسر غفور کے وہ کام جو وہیل چیئر پر ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتی تھیں ان کی سعادت بھی میرے حصہ میں آئی۔ بیگم صاحبہ دھوبی کے ہاں سے آئے ہوئے کپڑوں کی چھان بین کرتیں کہ کوئی دھبہ تو نہیں ہے کیونکہ غفور صاحب کے تمام سوٹ سفید ہوتے۔ کمر بند ڈالتیں، فالتو دھاگے کاٹتیں، Tag وغیرہ علیحدہ کرتیں، پھر میں یہ کپڑے غفور صاحب کے کمرے میں موجود کپڑوں کے اسٹینڈ میں رکھتا اور اس کی باقاعدہ ترتیب ہوتی تھی کہ جس طرح کپڑے پہنے جاتے ہیں اسی طرح وہ سجا دیتی تھیں۔ غفور صاحب میں اتنی نفاست تھی کہ وہ ہر روز دھلا جوڑا پہنا کرتے اور پرانے کو باقاعدہ تہہ کرتے۔ ہمیشہ گرم پانی سے نہاتے چاہے سردی ہو یا گرمی۔ جوتے خود صاف کرتے۔‘‘
شاوت لالہ نے مزید بتایا کہ اسلام آباد سے بیماری کے دن گزار کر جب آئے تو فیڈرل بی ایریا کا مکان جو کہ ایک تاریخی مقام تھا، اس کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا، صرف اس وجہ سے کہ بقول ان کے’’ والدین کے جانے کے بعد اولاد لڑ پڑتی ہے اور خاندان سے برکت اٹھ جاتی ہے‘ رشتے ناتے ختم ہوجاتے ہیں‘‘ وہ مکان بکنے لگا تو انہوں نے مجھ سے ذکر کیا، میں نے کہا: آپ کا فیصلہ ہے ٹھیک ہی ہوگا۔مکان بکنے کا بیگم صاحبہ پر بڑا منفی اثر پڑا۔ بیگم صاحبہ جیسی خدمت گزار عورت میں نے نہیں دیکھی۔ وہ رات بارہ، ایک بجے تک انتظار کرتی تھیں۔ شادیوں میں غفور صاحب کھانا نہیں کھاتے تھے۔ کوئی زیادہ مجبور کرتا تو میٹھا کھالیتے۔ وہ میٹھا شوق سے کھاتے تھے۔ ادھر گلشن اقبال میں فیصل مسجد کے سامنے 200 گز کا ایک چھوٹا مکان خرید لیا۔ اولاد میں بیٹوں کی شادی ہوچکی تھی، ایک صاحبزادے امریکا میں رہائش پذیر ہیں اور ایک نے اپنا مکان بنا لیا تھا، صرف بڑے صاحبزادے ساتھ تھے، وہ کرائے پر چلے گئے۔ بیگم صاحبہ گلشن اقبال کے مکان میں تنہائی محسوس کرنے لگیں اور ڈپریشن کا شکار ہوگئیں۔ ڈیڑھ سال میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد غفور صاحب کی زندگی تنہائی میں گزرنے لگی۔ ان کی اولاد میں بڑے صاحب زادے ہفتے میں چار دن ان کے ساتھ ہوتے اور صبح اپنے آفس وہیں سے جاتے۔ باقی تین دن چھوٹے صاحب زادے ان کے ساتھ رہتے۔ شام کو تمام بیٹے اور بیٹیاں اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاتے اور سب مل کر کھاتے اور رات گئے تک باتیں کرتے۔ غفور صاحب اُن کو خود پر گزرے ہوئے پرانے واقعات سناتے۔‘‘
ایم کیو ایم کا ذکر کرتے ہوئے شاوت خان نے کہا: ’’غفور صاحب جوانوں سے امید اور محبت رکھتے تھے۔ فیڈرل بی ایریا میں ان کے گھر کے سامنے ایم کیو ایم والے الیکشن کے دنوں میں کیمپ لگاتے اور غفورا ٹھاہ کے نعرے لگاتے۔ ان کی اس زمانے میںیہ حرکتیں چلتی رہتیں۔ مگر غفور صاحب ان سے حال احوال پوچھتے۔ خاص طور سے نماز سے واپسی پر ان سے ضرور گفتگو کرتے اور گھر سے کیمپ میں پانی وغیرہ بھجواتے تھے۔ ایم کیو ایم کے لڑکوں کی ان حرکتوں پر کہتے تھے کہ یہ نا سمجھ بچے ہیں۔ ایک دفعہ وزیراعظم جونیجو سے ملاقات تھی، ملاقات کے بعد وہ غفور صاحب کو گیٹ تک چھوڑنے آئے۔ ہمارے پاس سفید 82 کرولا تھی اور اس میں سفید ہی سیٹ کور تھے، اور چونکہ غفور صاحب کو صفائی بہت پسند تھی، میں اس کو بے حد صاف رکھتا تھا۔ وزیراعظم صاحب نے کہا کہ غفور صاحب گاڑی تبدیل کرلیں، یہ تو بہت پرانا ماڈل ہوگیا ہے۔ فرمایا: یہ تو جماعت (جماعت اسلامی) کی امانت ہے، میری ذاتی گاڑی کوئی نہیں۔ نعمت اللہ خان کے بیٹے ندیم سے تمام ٹیکس بھروایا کرتے تھے۔ بیگم صاحبہ کے ناظم آباد والے مکان کے کرائے کا بھی ٹیکس ادا ہوتا تھا۔گھر میں غفور صاحب کے پیسے کا لین دین میں ہی کرتا تھا۔ غفور صاحب مجھے بلینک چیک دستخط کرکے دے دیا کرتے تھے۔ جب غفور صاحب بہت بیمار رہنے لگے تو میں نے کہا کہ آپ اپنا اکائونٹ اپنے بیٹوں کے نام کروادیں، لیکن آخر تک ان کا اصرار رہا کہ تم ہی سنبھالو۔ غفورصاحب کے تمام بیٹے مل جل کر رہتے تھے حالانکہ ماں باپ کے انتقال کے بعد اختلاف ہوجاتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ اپنے پوتے حسن سے بہت محبت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سیاست میں تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس کی سرگرمیوں پر خوش ہوتے اور کہتے تھے: میری جگہ جماعت میں حسن ہوگا۔ جمعیت کے لڑکوں سے بہت محبت کرتے تھے۔
غیر جماعتی دوستوں میں خاص کر پیر پگارا سے بہت محبت کرتے تھے۔ پیر صاحب کے آخری ایام میں اپنے بیٹے طارق فوزی سے کہا کہ فون کرکے وقت لو ملاقات کرنا ضروری ہے۔ پیر صاحب پگارا کی بیماری کے بعد آغا خان اسپتال جانے سے دو چار دن پہلے ملاقات کے لیے گئے۔ اس کے علاوہ نورانی صاحب اور شیرباز مزاری صاحب سے لگائو رکھتے تھے۔ مزاری صاحب کے پاس جاتے تو وہ اٹھ کر گلے ملتے تھے، مزاری صاحب مجھے بھی گلے لگاتے تھے، خیریت پوچھتے تھے، وہ غفور صاحب سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ دونوں بہت گہرے دوست رہے۔ غفور صاحب کی بیماری کے وقت اسپتال ملنے آئے تھے اور خوب روئے‘ حالانکہ وہ خود بھی بیمار ہیں۔ بے نظیر سے بیٹی کی طرح کا لگائو تھا، ان کی سیاست کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے: ذہین بچی ہے۔ ایرانی سفارت خانہ کے پاس قائم گھر میں بے نظیر سے ملاقات ہوتی تھی، حتیٰ کہ آصف زرداری سے جیل میں ملاقات کی اور مولانا کی تفہیم القرآن کا تحفہ دیا اور نصیحت فرمائی۔کیونکہ میں اکثر گاڑی میں ان سے ملک کے حالات اور واقعات پر سوال کرتا تھا تو ایک دن میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھٹو کو اس کے اپنے لوگوں نے مروایا ہے۔ ایک دن پینوراما سینٹر میں قائم آفس میں بیٹھے تھے، فون آیا جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی، میں نے بھاگ کر اٹھایا اور دل کے اسپتال کارڈیو لے گیا۔ بعد میں پوچھتے رہے مجھے کیا ہوگیا تھا؟ مجھے آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ فون کس کا تھا اور اُس طرف سے کیا کہا گیا کہ طبیعت خراب ہوگئی۔ جب غفور صاحب کی بیٹی کی شادی تھی تو میں الطاف حسین کو کرولا82 میں لینے گیا اور الطاف حسین میرے ساتھ شادی میں آئے تھے۔ پیر پگارا کو بھی میں شادی میں لے کر آیا تھا۔‘‘
بیگم صاحبہ کے انتقال اور غفور صاحب کے آخری ایام کے بارے میں شاوت خان کا کہنا تھا کہ ’’بیگم صاحبہ کے بعد غفور صاحب بجھ گئے تھے اور بے حد کمزور ہوچکے تھے۔ کھانے میں بھی انہوں نے دائرہ محدود کردیا تھا۔ حالانکہ انہیں اپنی بڑی بہو اسماء کے ہاتھ کا ہریسہ (عربی ڈش) اور انڈے اور بیسن کا حلوہ بے حد پسند تھا، کہتے تھے یہ مکمل غذا ہے۔ وہ بھی چھوڑ دیا تھا اور پھر صاحبِ فراش ہوگئے۔ ان کی کمزوری بڑھ رہی تھی، حتیٰ کہ باتھ روم آنا جانا بھی مشکل تھا۔ بیٹے سے لحاظ کی وجہ سے مدد نہیں لیتے تھے۔ رات میں تو بیٹے ہی خیال کرتے مگر دن میں، مَیں اور ایک خدمت گار لڑکا ساتھ ہوتے اور مل جل کر کام کرتے۔ آخری دن بھی میں نے ان کے بال کٹوائے، خط بنوایا، ناخن کٹوائے۔ بالوں کو بڑی نفاست سے رکھتے تھے۔ حجام بھی کہتا تھا میں نے ان جیسے بال رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ بیگم صاحبہ کے انتقال کے بعد ہر ہفتے قبرستان جاتے تھے۔ واپسی پر نڈھال
ہوجاتے اور کہتے تھے کہ بیگم صاحبہ کی قبر کے ساتھ والی جگہ خالی ہے، میرے لیے رکھ لو۔ اور پھر انہیں وہیں جگہ ملی۔
سید منور حسن صاحب کے بیٹے کے ولیمے کا بلاوا تھا، ان کو فکر تھی، مگر اس دن مغرب کے وقت جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔‘‘